سبق نمبر03، عقیدۂ رسالت

  • Home
  • سبق نمبر03، عقیدۂ رسالت
Shape Image One

عقیدہ رسالت

advanced divider

سوال۲

: عقیدہ رسالت پر تفصیلی مضمون لکھیے 

:جواب

:عقیدہ رسالت

نبوت و رسالت ایک نہایت مقدس اور اہم ذمہ داری ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے خاص بندے انبیاء اور رسولوں کو عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ انسانوں کو کفر و شرک اور بت پرستی کی گمراہیوں سے نکال کر اسلام، ایمان، یقین، ہدایت اور نجات کی طرف دعوت دیں اور دنیا وآخرت میں لوگوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کریں۔

:رسول کے لغوی معنی

رسول عربی زبان کا لفظ ہے اور رسالہ سے ماخوذ ہے۔  رسالہ عربی میں پیغام کو کہتے ہیں۔ رسول کے معنی ہیں پیغام پہنچانے والا۔  رسول کی جمع رسل ہے۔

:رسالت کی اہمیت

:  رسالت یعنی ایمان بالرسل کی اہمیت کو جاننے کے لیے اس قدر کافی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ یہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ ہم نے اس لیے قائم فرمایا کہ کل بروز قیامت بارگاہ الہٰی میں کسی انسان کے پاس عذر باقی نہ رہے اور وہ انسان یہ نہ کہے کہ ہمارے پاس تو اللہ کی طرف سے کوئی ہادی اور رہنما آیا ہی نہیں جو ہمیں حقیقت حال یعنی ہدایت اور صراط مستقیم سے آگاہ و آشنا کرتا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: سب پیغمبروں کو اللہ تعالی نے خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والابنا کر بھیجا تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی حجت یعنی الزام کا موقع نہ رہے اور بہرحال اللہ تعالی غالب اور حکمت والا ہے۔ (سورہ نساء آیت:۱۶۵)

:انبیاء اور رسل کی خصوصیات

اللہ تعالی جن لوگوں کو منصب نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرماتا ہے، وہ لوگ نفسیاتی، روحانی اور عقلی کمالات کے اعتبار سے اپنی قوم میں سب سے منفرد اور ممتاز ہوتے ہیں۔  انبیاء اور رسل کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:

:بشریت (انسانیت)

ایک نبی اور غیر نبی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انسانیت اور بشریت میں دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کی رہبری کے لیے ہمیشہ انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کسی جن یا فرشتے کو نہیں۔ چنانچہ ہر نبی اپنے دور میں یہی اعلان کرتا ہے : کہہ دیجئے کہ بے شک میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔( سورہ کہف آیت:۱۱۰)

انبیاء اور عام انسانوں میں صرف وحی کے لحاظ سے ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ دیگر صفات کے لحاظ سے بھی فرق ہوتا ہے ۔ انبیاء اور رسل کی بشریت مادی کثافتوں سے پاک ہوتی ہے۔  انہیں قرب الہٰی میں کمال حاصل ہوتا ہے ۔ ان کا دل اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا مرکز ہوتا ہے

:وہبیت

وہبیت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کوئی اکتسابی چیز نہیں جو جدوجہد، تلاش ، جستجو اور کوشش و محنت سے مل جائے بلکہ یہ تو اللہ تعالی کا خصوصی عطیہ ہوتا ہے جو صرف اسی شخص کو ملتا تھا جس کو اللہ مرحمت فرماتا تھا ۔ اس میں انسانی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : یہ تو اللہ تعالی کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔(سورہ جمعہ آیت ۴)

:تعلیمات من جانب اللہ

انبیاء اور رسل لوگوں کے سامنے جو تعلیمات پیش کرتے رہے،  وہ ان کی اپنی طرف سے نہ تھیں بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے ہوتی تھیں۔ انبیاء کرام جو کچھ بھی کہتے تھے ، وہ وحی اور حکم الہٰی کے مطابق کہتے تھے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : وہ اپنی خواہش نفس سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہ تو وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (سورہ نجم آیات:۳-۴)

:عصمت و معصومیت

اللہ تعالی کے تمام انبیاء اور رسول معصوم، گناہوں اور خطاؤں سے پاک اور محفوظ ہوتے ہیں۔ ان کے اقوال و افعال شیطانی عمل دخل سے پاک ہوتے ہیں۔ ان کا کردار بے داغ اور بے عیب ہوتا ہے ۔ وہ بے حد روحانی قوت و طاقت کے مالک ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالی کی طرف سے ان کی خصوصی حفاظت اور نگرانی ہوتی ہے۔  یہی حفاظت اور نگرانی ان کو فکر و اجتہاد اور اعمال و اخلاق کی لغزشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : اور بے شک وہ (انبیاء اور رسل)ہمارے نزدیک برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ (سورہ ص آیت:۴۷)

:واجبِ اطاعت

: ہر صاحب ایمان پر انبیاء اور رسل کی اطاعت اور اتباع لازم ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کے حکم سے پیغمبر کی اطاعت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : اور ہم نے ہر رسول کو اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (سورہ نساء آیت:۶۴)

قرآن و حدیث کا فیصلہ ہے کہ انبیاء اور رسل معصوم ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے پیغمبر کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت قرار دیا ہے لہذا انبیاء کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:  جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کرے گا ، اس نے دراصل اللہ ہی کی اطاعت کی۔  (سورہ نساء آیت:۸۰)