سبق نمبر 22، ہجرتِ مدینہ اور غزوات

  • Home
  • سبق نمبر 22، ہجرتِ مدینہ اور غزوات
Shape Image One

ہجرت مدینہ اور غزوات

advanced divider

سوال۱

ہجرت مدینہ کے واقعے کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ وضاحت کیجئے۔

:جواب

:ہجرت مدینہ کا واقعہ

جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے توحید کی طرف دعوت دی گئی اور شرک اور کفر کی مذمت کی گئی تو کفار مکہ آپﷺ کی دشمنی اور عداوت پر تل گئے۔ آپﷺ کے متبعین اور پیروکار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا جانے لگا۔ آپﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسلام کی راہ سے روکنے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالی جانے لگیں لیکن یہ تمام چیزیں آپﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قوت ایمانی اور دعوت و تبلیغ کے کام سے پیچھے نہ ہٹا سکیں۔

:قریش کا ظلم و ستم

قریش مکہ نے صرف دین اسلام کو جھٹلانے اور توحید سے انکار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں۔ حضورﷺ پر غلاظت پھینکنا، راستے میں کانٹے بچھانا، راہ چلتے ہوئے آوازیں کسنا وغیرہ،  ان تمام وجوہات سے مسلمانوں کا مکہ میں رہنا محال ہو گیا تھا۔

:تبلیغ دین میں مشکلات اور رکاوٹیں

مکہ میں اس قسم کے حالات تھے کہ نہ تو مسلمان کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کی اشاعت کر سکتے تھے اور نہ ہی آزادی سے اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتے تھے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف تشریف لے گئے لیکن وہاں کے لوگوں نے بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ اب دین کی نشر و اشاعت اور عمل کے لیے کوئی اور مرکز تلاش کرنا ضروری ہو گیا تھا۔

:کفار کا ناپاک منصوبہ

قریش نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان طاقت، قوت اور تعداد میں بڑھ رہے ہیں اور اسلام خوب پھیلنے لگا ہے تو سردارانِ قریش نے دارالندوہ میں مشورہ کیا۔ جس میں یہ رائے پیش کی گئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا جائے یا جلاوطن کر دیا جائے یا انہیں کہیں قید کر دیا جائے۔

:ہجرت مدینہ کا حکم

:  نبوت کے تیرہویں سال ۶۲۲ءمیں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے حکم دیا گیا کہ آپ فورا مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے لوگوں کی امانتیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ امانتیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کیں اور انہیں اپنے بستر پر سونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ صبح یہ  امانتیں لوگوں کے حوالے کر کے مدینہ آ جانا۔

:غار ثور میں قیام

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ ہجرت کے لیے باہر نکلے تو کفار نے محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر دعا پڑھ کر ان کی طرف پھینک دی جن سے کفار آنکھیں ملتے رہ گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے سے محاصرے سے باہر نکل گئے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ غار ثور میں پہنچ گئے جہاں تین دن تین رات قیام کیا۔  صبح کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں غار ثور تک پہنچ گئے لیکن آپ کو نہ دیکھ سکے۔

:مدینہ میں استقبال

۱  ہجری  بروز جمعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ قبا نام کی ایک بستی پہنچے اور کچھ دن وہاں قیام کیا اور مسجد کی تعمیر کی جس کا نام مسجد قبا ہے۔ قبا سے جمعہ کے روز مدینے میں داخل ہوئے اور قبیلہ بنی سالم کی بستی میں اسلام کا سب سے پہلا جمعہ پڑھایا۔ دوسری طرف مدینے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر پھیل چکی تھی لہذا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے میں داخل ہونے پر بہت پرتپاک استقبال کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔