سبق نمبر 16، سیرتِ طیبہ (بعثتِ نبوی ﷺ)

  • Home
  • سبق نمبر 16، سیرتِ طیبہ (بعثتِ نبوی ﷺ)
Shape Image One

سیرت طیبہ

advanced divider

 مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کیجیے ۔

۲سوال

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب کے کیا حالات تھے؟ بیان کیجیے۔

:جواب

:بعثت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب کے حالات

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے قبل عرب کے حالات انتہائی ابتر تھے۔ عرب کے لوگ معاشی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی غرض زندگی کے ہر شعبے میں جہالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے جس کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:

:عرب کی اخلاقی حالت

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب کی اخلاقی اعتبار سے حالت بہت خراب تھی۔ جہالت نے ان میں بت پرستی رائج کر دی تھی اور توہمّ پرستی بھی ان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی،کائناتِ خدا کی ہر ایک چیز،  پتھر، درخت، سورج، چاند، پہاڑ، دریا وغیرہ کو اپنا معبود سمجھنے لگےتھے، اللہ کی عظمت و جلال کو فراموش کر کے خود اپنی اور انسانیت کی قدر و قیمت بھول چکے تھے، انسانی حقوق کو پامال کر دیا گیا تھا۔ قتل، راہزنی، عورتوں پر جبر و زیادتی، بچیوں کو زندہ دفن کر دینا، شراب، نشہ، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی، ذاتی دشمنیاں جو نسل در نسل چلتی رہتیں،  غرض کون سی ایسی برائی تھی جو ان عرب کے لوگوں میں نہ تھی۔

:عرب کی مذہبی حالت

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب کے مذہبی حالات بھی انتہائی خراب تھے۔ کسی زمانے میں ان عرب کے لوگوں کا مذہب دین ابراہیمی تھا لیکن جب ان کی مذہبی حالت خراب ہو گئی اور نیک لوگ تلاش کرنے سے بھی نہ ملے تو انہوں نے  اپنے نیک آباء و اجداد کے بُت بنا لیے، اچھے زمانے کی یاد دہانی کے لیے ان کو یاد کیا کرتے لیکن ان کے بعد آنے والی نسلوں نے ان کی پوجا شروع کر دی جس سے ان کے اندر بت پرستی نے جنم لیا اور وہ بتوں کے سامنے جھکنے اور اپنی مرادیں مانگنے لگے،ان پتھروں کے بے جان بتوں کو خدائی اوصاف کا مالک سمجھنے لگے۔ اس کے علاوہ ان کے اندر کچھ اور مذاہب بھی تھے مثلا یہودی، عیسائی، آتش پرست، دہریے وغیرہ۔ یہودی مذہب کے لوگ جو کہنے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے مگر ان میں دین موسوی کی کوئی بات باقی نہ رہی تھی،اسی طرح عیسائی مذہب کے لوگ جو خود کو عیسیٰ علیہ السلام کا پیروکار کہتے اور ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بھی تصور کرتے ، اس طرح وہ شرک جیسی برائی کا شکار ہو گئے۔ دہریے بھی عرب کے اندر موجود تھے جن کا ماننا تھا کہ اس کائنات کا کوئی رب نہیں ہے اور وہ کسی بھی مذہب کی پیروی نہ کرتے۔ اس کے علاوہ مجوسی یعنی آگ کی پوجا کرنے والے بھی عرب میں موجود تھے۔غرض بعثت نبوی سے قبل عرب کے لوگ مذہبی اعتبار سے بہت گمراہی کا شکار تھے۔

سوال ۳

 بعثت صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا آثار تھے؟ وضاحت کیجئے

جواب

:بعثت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار

جناب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت ورسالت سے پہلے ہی رسالت ونبوت کے آثار اور اشارات ظہور پذیر ہونا شروع ہو گئے تھے جن میں چند آثار و اشارات درج زیل ہیں:

:غار حرا میں عبادات /خلوت اختیار کرنا

بعثت سے پہلے سے ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی بہت پسند تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن غار حرا میں عبادت کیا کرتے ،مسلسل عبادات اور ذکر الہٰی میں مشغول رہتے،کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لے کر غار حرا جاتے،جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تو گھر تشریف لے آتے اور کچھ دن بعد پھر کھانا پینا ساتھ لے کر غار حرا چلے جاتے۔

:سچے خواب دیکھنا

بعثت نبوی سے پہلے ہی سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے سچے خواب دکھائے جاتے اور جو خواب بھی دکھایا جاتا، وہ روز روشن کی طرح پورا ہو جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:  سچا خواب نبوت کا ۴۶واں حصہ ہے۔ (صحیح مسلم)

:پتھروں اور درختوں کا سلام کرنا

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب تجارت کیا کرتے تھے اور تجارت کے سلسلے میں مکے سے شام جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جناب ابو طالب نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ساتھ تجارتی سفر میں شام کے لیے ہمراہ لے لیا۔ اس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲سال کے تھے۔ اسی سفر میں بحیرا راہب کا مشہور واقعہ پیش آیا کہ جب ابو طالب بصریٰ میں ایک عیسائی راہب کے عبادت خانے میں گئے جس کا نام بحیرا تھا ، اس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ یہ سید المرسلین ہیں۔ لوگوں نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ؟  اس نے کہا کہ جب تم لوگ پہاڑ سے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ سارے درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ پھر ابو طالب سے کہا کہ تم انہیں واپس مکہ لے جاؤ ورنہ یہودی انہیں قتل کر دیں گے چنانچہ ابو طالب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس مکہ لے آئے۔