آیت لَيْسَ الْبِرَّ میں اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل مواقع پر صبر کی ترغیب دی ہے
۱- مالی تکلیف پر صبر: الْبَأْسَاءِ یعنی فکر، بھوک، تنگدستی پر صبر کرنا۔
۲- جسمانی تکلیف پر صبر: وَالضَّرَّاءِ یعنی مصیبت، پریشانی، بیماریوں اور جسمانی تکالیف پر صبر کرنا۔
۳- جہاد کرنے میں صبر: وَحِينَ الْبَأْسِ یعنی جنگ و جہاد کے وقت صبر کرنا۔
ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا مشکل کام ہوتا ہے ۔ اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
صلہ رحمی میں “صلہ” جس کا مطلب ہے( سلوک/ بدلہ /جزا) کے آتے ہیں اور رحمی” رحم “سے ہے جس سے مراد (رشتہ دار/ قرابتدار) کے آتے ہیں-
صلہ رحمی کا مطلب ہے” رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا،ان سے اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، ایک دوسرے کے خوشی غم، دکھ درد میں شانہ بشانہ چلنا، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، اگر انہیں مالی تنگدستی ہو تو اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کرنا، ان کے ساتھ احسان کرتے رہنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔”
قرآن کریم میں یتامیٰ کے اموال کے متعلق سرپرستوں کو تین ہدایات دی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ جب یتیم بچے بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کی امانت (مال ) دیانت داری سے ان کے حوالے کردو۔
۲۔ ان کے مال میں بددیانتی نہ کرو کہ ان کے والد کی طرف سے دیے گئے اعلیٰ قسم کے مال کو اپنے گھٹیا مال سے نہ بدلو۔
۳۔ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا کر اپنے ذاتی استعمال میں نہ لاؤ۔
ان تمام کاموں سے سرپرستوں کو سختی سے منع کیا گیا ۔ جو ایسا کرے گا، اس کے لیے بڑا گناہ ہے۔
بلوغ اور رشد کا مفہوم مندرجہ ذیل ہے:
بلوغ : شریعت اسلامی کی رو سے بلوغ سے مراد بچے کا اس عمر تک پہنچنا ہے جس عمر میں اس پر دین کے تمام احکامات (نماز ،روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ) فرض ہو جاتے ہیں-
رشد : شریعت اسلامی کی رو سے رشد سے مراد (عقل، شعور، ہدایت، راست داری وغیرہ) یعنی بچے کا عمر کے اس حصے میں آجانا جب بچہ میں مالی انتظامات، کاروبار کی سمجھ بوجھ، اچھے اور برے کی تمیز، سمجھ داری سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے-
: یتیم کے مال کو اس کے حوالے کرنے کا قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب یتیم بچے کو اس کا مال اس کے حوالے کرنے کا وقت (عمر) آجائے یعنی وہ بالغ ہو جائے اور سمجھ داری آ جائے تو ان کا مال ان کے سپرد کرنے لگو تو گواہ بنا لیا کرو ۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ بعد میں وہ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہم کو مال واپس نہیں کیا گیا اور جتنا مال دیا گیا اس کا علم بھی گواہوں کے سامنے آ سکے گاجس طریقے سے کسی بھی قسم کی مخالفت یا لڑائی جھگڑے کی نوبت سے بچا جا سکے گا۔
قرآن کریم میں یتیم کی کفالت اور سرپرستی کا حکم کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یتیم کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اس کی پرورش اچھے طریقے سے کی جائے۔اگر اس کے پاس مال ہو تو اس کی حفاظت اور افزائش کی کوشش کی جائے اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس پر اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ اسے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔اس کے ساتھ ہمیشہ اچھے اور پروقار طریقے سے بات کی جائے۔اس کی دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کا اچھے طریقے سے انتظام کیا جائےاور جب اس کا مال واپس کرنے کا وقت آجائے تو دیانت داری سے اس کے حوالے کر دیا جائے۔
قرآن کریم میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے کہ جو یتیم کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب یہ لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کیے جائیں گے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے فرشتے مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑے رکھتے ، پھر ان کے منہ میں آگ کے پتھر ڈالتے ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھاتے تھے-“
ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایک بے گناہ انسان کے قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔کوئی بھی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت و عظمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد کا معاملہ ہوگا تو وہ کسی کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اس طرح پوری انسانیت اس کے مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔ اس لیے ایک انسان کے خلاف یہ جرم ساری انسانیت کے خلاف ہے-
قرآن کریم نے امن و امان تباہ و برباد کرنے والوں (ڈاکوؤں/ لٹیروں/ رہزنوں وغیرہ) کی سزا بیان فرمائی ہے جو دنیاوی احکام سے متعلق ہے ۔ ان کے لیے دنیا میں چار طرح کی سزائیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔ قتل کردیا جائے۔
۲۔ سولی پرلٹکا دیا جائے۔
۳۔ ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں۔
۴۔ جلا وطن یعنی ملک سے نکال دیا جائے۔
اور آخر میں فرمایا کہ یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے۔ آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے-
اللہ تعالی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والدین، بہن بھائی، میاں بیوی، کنبہ قبیلہ، مکان دکان، مال و دولت اور اولاد وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اس کو مجھ سے محبت اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سےبڑھ کر نہ ہو جائے.” ( بخاری)
0 of 22 Questions completed
Questions:
You have already completed the quiz before. Hence you can not start it again.
Quiz is loading…
You must sign in or sign up to start the quiz.
You must first complete the following:
0 of 22 Questions answered correctly
Your time:
Time has elapsed
You have reached 0 of 0 point(s), (0)
Earned Point(s): 0 of 0, (0)
0 Essay(s) Pending (Possible Point(s): 0)
دیے گئے جوابات میں سے درست جواب کا انتخاب کیجیے
لا تاكلواکے معنی ہیں
بالباطلکے معنی ہیں
تراضکے معنی ہیں
الجارکے معنی ہیں
ابن السبيلکے معنی ہیں
ايمانكم کے معنی ہیں
مسرفونکے معنی ہیں
تقدرواکے معنی ہیں
فخورا کے معنی ہیں