سبق نمبر 07، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح

  • Home
  • سبق نمبر 07، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح
Shape Image One

عقیدہ رسالت

advanced divider

:مختصر جوابات کے سوالات

سوال ۱۲

اچھے انسان کی کیا علامات ہیں؟ بیان کیجیے۔

:جواب

:اچھے انسان کی نشانی (علامات)

حدیث کی روشنی میں ایک اچھے انسان کی علامت اور نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ انسان سب سے اچھا اور سب سے بہترین ہے جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو،  ان کو نفع پہنچائے،  انسانیت کے کام آئے،  جس کے دل میں انسانیت کی بھلائی اور ان کی فلاح کا جذبہ ہو اور جو انسانیت کی خدمت کرنے کو پسند کرتا ہو۔  ایسا شخص تمام انسانوں سے افضل ، بہتر اور اچھا شخص کہلاتا ہے۔

سوال۱۳

رشوت کسے کہتے ہیں؟ وضاحت کیجیے۔

:جواب

:رشوت کی تعریف

رشوت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ناجائز کام نکالنے ،کسی پر ظلم کرنے یا کسی کا حق مارنے کے لیے روپیہ پیسہ قبول کیا جائے یا تحفے یا نذرانے اس مقصد کے لیے قبول کیے جائیں ۔ یہ سب رشوت کی تعریف میں آتا ہے۔

سوال۱۴

ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے چھ حقوق ہیں، اس کی وضاحت کیجئے۔

:جواب

:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق

اسلام نے ایک مسلمان پر دو طرح کے حقوق عائد کیے ہیں جن کو پورا کرنا مسلمان پر لازم ہے، ان میں سے ایک حقوق العباد ہیں۔
حقوق العباد میں ایک حق مسلمان کےحقوق کی ادائیگی ہے جو اس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں:
• جب وہ کسی مسلمان سے ملے تو اسے سلام کرے۔
• اور جب کوئی مسلمان اسے دعوت دے تو وہ اسے قبول کرے۔
• اور جب اسے چھینک آئے تو جواب میں “اللہ تم پر رحم کرے “کہے۔
• اور جب وہ مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے۔
• جب کسی مسلمان بھائی کا انتقال ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرے اور جنازے کے ساتھ ساتھ چلے۔
• اور جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی دوسرے مسلمان کے لیے پسند کرے۔

سوال۱۵

علم کی عظمت بیان کیجئے۔

:جواب

:علم کی عظمت

علم کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات جو نازل کی گئیں، وہ علم ہی سے متعلق تھیں۔ انسان دنیا میں اللہ تعالی کا خلیفہ اور اس کا نائب ہے، اسے علم ہی کی وجہ سے باقی مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے۔ علم ہی کی وجہ سے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ قرآن کریم میں علم والوں کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔  ارشاد باری تعالی ہے: کیا علم والے اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ (سورہ زمر آیت:۹)

سوال۱۶

اخلاص سے کیا مراد ہے؟ وضاحت کیجیے۔

:جواب

اخلاص سے مراد پاک اور خالص ہونا ہے۔ اخلاص سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان جو بھی نیک کام کرے،وہ عمل خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرے، اس میں کسی بھی قسم کا دکھاوا یا ریاکاری نہ ہو،  اس عمل میں کوئی دنیاوی غرض یا مقصد شامل نہ ہو،  اس عمل کا مقصد صرف اللہ کو راضی کرنا مقصود ہو کیونکہ انسان کو عمل کا ثواب اس کے اخلاص اور نیت ہی پر ملتا ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی اجر و ثواب ملتا ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔

سوال۱۷

ایمان کا اعلیٰ اور ادنی ٰشعبہ (درجہ) کون سا ہے؟ وضاحت کیجیے۔

:جواب

ایمان کا اعلیٰ اور بلند شعبہ حدیث کی رو سے لا الہ الا اللہ کہا گیا ہے کیونکہ اس میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کے شرک کی نفی ہے جو ایمان کی بنیاد ہے اور یہ لا الہ الا اللہ کا اقرار اللہ کو بہت پسند ہے،  اس لیے کلمہ لا الہ الا اللہ ایمان کا سب سے افضل درجہ ہے۔

ایمان کا سب سے ادنی ٰدرجہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے یعنی ایک مسلمان کے دل میں انسانیت کو تکلیف سے بچا نے کی خوبی ہو اور اس تکلیف سے بچانے کے لیے وہ راستے کی ہر رکاوٹ اور تکلیف کو دوسرے لوگوں سے دور کرے۔ یہ ایمان کا ادنی شعبہ (درجہ) ہے۔

سوال۱۸

حیا کا کیا مطلب ہے؟

:جواب

:حیا کا معنی و مفہوم

حیا و پاک دامنی ایسی خوبی ہے جو ایک انسان کو بداخلاقی، برائیوں اور گناہوں سے بچاتی ہے۔ نبیﷺنے حیا کو انسان کی زیب و زینت شمار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حیا سے خیر ہی کی امید ہوتی ہے۔ ( بخاری)

ایک اور حدیث میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایا : حیا ایمان کی علامت ہے۔ (صحیح بخاری)

سوال۱۹

ظن/گمان کی وضاحت کریں۔

:جواب

:ظن / گمان کی تعریف

حدیث میں مومن کو زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ مطلق گمان کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ زیادہ گمان سے روکا گیا ہے کیونکہ بعض گمان محض گناہ ہوتے ہیں لہذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ بہت زیادہ گمان سے بچا جائے۔

گمان دو طرح کے ہوتے ہیں: ٭ حسن ظن (اچھا گمان)  ٭ بد ظنی (برا گمان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  اللہ تعالی فرماتا ہے یعنی حدیث قدسی ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔  اب اس کی مرضی ہے،  جیسا چاہے میرے ساتھ گمان رکھ لے۔ ( ابو داؤد)

قرآن کریم میں اس بارے میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو!  زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (سورہ حجرات آیت:۱۲)

سوال۲۰

محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت اور اعانت کی وضاحت کریں

:جواب

:محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت اور اعانت

جب بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی اس کے مشکل کاموں میں مدد کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی دنیا و آخرت میں اس کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔ جب انسان دوسروں کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔ جب انسان کسی کے آنسو پونچھتا ہے یعنی اس کا درد بانٹتا ہے،  اس کے آنسوؤں کا مداوا کرتا ہے،  جب انسان دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے تو اللہ اس کے زخموں کا علاج فرما دیتاہے۔ جب انسان دوسروں کا سہارا بنتا ہے تو اللہ تعالی اس کا معاون اور مددگار بن جاتا ہے۔

سوال۲۱

:پڑوسیوں کی اقسام بیان کریں

:جواب

:پڑوسیوں کی اقسام

اللہ تعالی نے سورہ نساء کی آیت میں پڑوسیوں کی تین اقسام بیان کی ہیں اور ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے، وہ اقسام درج ذیل ہیں:

٭ الجار ذي القربى، رشتہ دار پڑوسی جس سے خونی یا دینی رشتہ ہو۔

٭ والجار بالجنب، اجنبی ہمسایہ جس سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہ ہو چاہے وہ کسی بھی مذہب رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔

٭ والصاحب بالجنب، عارضی پڑوسی یعنی وقتی طور پر جن کا ساتھ ہو جیسے ہم جماعت، ہم سفر اور  ایک ساتھ کام کرنے والے وغیرہ۔

یہ تین اقسام ہیں پڑوسیوں کی جن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

سوال۲۲

إكرام الضيف، مہمان کے اکرام کی وضاحت کیجئے

:جواب

:إكرام الضيف( مہمانوں کی مہمان نوازی)

مہمانوں کی عزت و تکریم اور ان کی خاطر تواضع کرنا اسلامی معاشرے کی اعلی تہذیب اور بلند اخلاق کی روشن دلیل ہے، اسلام نے مہمان نوازی کی بڑی ترغیب دی ہے۔ مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔

مہمان نوازی کے متعلق بے شمار احادیث میں ترغیب آئی ہے۔  ایک حدیث میں مہمان نوازی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جو دوسروں کو کھانا کھلائے اور سلام کا جواب دے اور جو ضیافت(مہمان نوازی) نہیں کرتا، وہ خیر سے محروم ہے۔ (صحیح الجامع)

سوال۲۳

صلہ رحمی سے کیا مراد ہےٖ؟وضاحت کیجئے۔

:جواب

: صلہ رحمی کا مفہوم

رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، میل جول،  پیار محبت، ہمدردی قائم کرنا صلہ رحمی کہلاتا ہے ۔قرآن کریم میں رشتہ داروں سے
صلہ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اور وہ قرابت دار /رشتہ دار جو اُن رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ (سورۃ الرعد، آیت: ۳۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں صلہ رحمی کے متعلق یوں ارشاد فرمایا: جو شخص یہ چاہے کہ اس کی روزی کشادہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔  (سنن ترمذی)