سبق نمبر 06، منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ و تشریح

  • Home
  • سبق نمبر 06، منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ و تشریح
Shape Image One

منتخب قرآنی آیات

advanced divider

ترجمہ و تشریح /مشکل الفاظ کے معنی /مختصر جوابات کے سوالات(۶-۱۰)

سوال۱

مندرجہ ذیل قرآنی آیت کا ترجمہ اور تشریح تحریر کریں۔

آیت۶

وَاعْبُدُوْا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا ﴿۳۶

:ترجمہ

اور اللہ ہی کی عبادت کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی پڑوسیوں اور دور والے پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلسوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہیں (غلام باندیاں وغیرہ ، ان کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو ) بے شک اللہ تعالی تکبر (غرور) کرنے والے اور شیخی باز (فخر کرنے والے)کو پسند نہیں کرتا۔  (سورۃ النساء آیت۳۶)

:تشریح

:حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ترغیب

اس آیت میں مسلمانوں کو ان حقوق کی طرف توجہ دلا کر ترغیب دلائی گئی ہے جوکہ مسلمانوں پر واجب اور ضروری ہیں اور یہ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔

:حقوق اللہ


اس آیت میں سب سے پہلے حقوق اللہ یعنی اللہ کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے کیونکہ صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور اس نے انسان کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے اور اللہ تعالی کی ذات و صفات اور صفات کے تقاضوں میں کسی کو بھی شریک نہ بنایا جائے کیونکہ اللہ تعالی وحدہ لا شریک ہے جو ان تمام شراکت داریوں سے پاک ہے۔  اس لیے شرک کو ظلم عظیم یعنی بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے۔

:حقوق العباد

اس آیت میں دوسرے حق حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی جانب توجہ دلائی گئی ہے اور حقوق العباد میں سب سے پہلے والدین کا حق ہے، اس لیے سب سے پہلے والدین کے حق کو بیان کیا گیا۔  والدین کے ساتھ حسن و سلوک کے ساتھ پیش آیا جائے ، ان کے سامنے ہمیشہ جھک کر رہنا چاہیے، ان سے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ان کی خدمت کی جائے، ان کے احسان کو یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے لیے دعائے رحمت کی جائے۔

والدین کے بعد رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔  اس کی بڑی تاکید آئی ہے کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق اور اس کے عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں۔ اس کے بعد یتیموں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے کہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ، ان کے مال کی حفاظت کی جائے،  ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے ۔اس کے بعد مسکینوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ضرورت مند ہونے کے باوجود عزت نفس کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ان کو تلاش کر کے ان کی ضرورت پوری کی جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔اس کے بعد پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ جو پڑوسی قریبی ہوں خواہ قدرے دور ہوں، ان کا خیال رکھنا ، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا،  ان کو اپنی ذات سے کوئی تکلیف نہ پہنچانا۔

 اس کے بعد مسافروں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے اور ان کو کسی بھی قسم کی ضرورت ہو تو اسے پورا کیا جائے۔اس کے بعد غلام اور باندیوں کے حقوق کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ ان کے ساتھ بھی حسن سلوک والا رویہ روا  رکھا جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لیا جائے ۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالی تکبر اور غرور کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے اور اس شخص کو بھی ناپسند کرتا ہے جو شیخی مارنے والا (فخر کرنے والا)ہو۔

آیت ۷

مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلىٰ بَنِيْٓ إِسْرَآءِيْلَ أَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَّمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا وَلَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ﴿۳۲

:ترجمہ

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کی سزا کے لیے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کوئی کسی کی جان بچائے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچا لی اور ان کے پاس ہمارے پیغمبر کھلی واضح ہدایات لے کر آئے۔ پھر بے شک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد (بھی)زمین میں زیادتیاں ہی کرتے ہیں۔ (سورہ مائدہ آیت:۳۲)

:تشریح

:انسان کی عظمت اور اس کی جان کی حرمت

اس آیت میں اللہ تعالی نے ایک انسان کی جان کی قدر و قیمت اور اس کی عظمت کو بیان کیا ہے ۔ اس روئے زمین پر سب سے پہلا اور سب سے بڑا گناہ یہی ہوا تھا ،قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تھا ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہو گیا اور بنی اسرائیل میں قتل عام کا رواج پڑ گیا تھا ۔ جو شخص جیسے چاہتا قتل کر دیتا۔ اس بنا پر تورات میں واضح طور پر حکم یہ دیا گیا کہ کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا گیا تو گویا تمام انسانوں کو قتل کے مترادف ہے یعنی کسی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے کیونکہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسانیت کی عظمت و حرمت کا احساس مٹ جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی اور اگر اس ذہنیت کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسانوں کی جانیں غیر محفوظ ہو جائیں گی لہذا قتل ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو ، تمام انسانوں کو قتل کر دینے کے مترادف ہے اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، اس نے انسانیت کی عظمت اور حرمت کا تحفظ قائم رکھا ۔ اس بنا پر اس نے گویا تمام بنی نوع انسان کی جان کو بچا لیا اور انسانی جان کی قدر کی۔

آیت۸

هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدىٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ﴿۳۳

:ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔ ( سورۃ التوبہ آیت ۳۳)

تشریح

:دین اسلام کی سربلندی اور اس کی بقا

اس آیت میں دین اسلام کی سربلندی، بقا اور اس کے غلبہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہدایت کا سامان قرآن و حدیث یعنی اسلام دے کر بھیجا تاکہ اس کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر دے ۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ دین اسلام کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کیا جائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے: آپ یوں کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بلا شبہ باطل مٹ جانے والا ہی ہے ۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت:۸۱)

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : روئے زمین پر کوئی کچا پکا مکان باقی نہ رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہو جائے ۔ (الحدیث)

آیت ۹

أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰهَ عَلىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ ﴿۳۹

:ترجمہ

جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے،  انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے (مدد کرنے )پر پوری طرح قادر ہے۔ (سورہ حج آیت:۳۹)

:تشریح

: کفار کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت و حکم

اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں سے لڑنے یعنی جہاد کرنے کا حکم اور اجازت دی گئی ہے ۔ مکہ مکرمہ میں ۱۳ سال تک مسلمانوں کو صبر و تحمل  اور  ضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی ۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

مکہ کے مشرک کافر صحابہ کرامؓ کو بہت زیادہ تکلیف دیتے تھے ۔ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو کسی کا سر پھٹا ہوتا، کوئی زخمی ہوتا، کوئی کسی تکلیف کے ساتھ آتا ۔ سب صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تسلی دیا کرتے اور فرماتے:  صبر رکھو ابھی مجھے لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد یہ آیات ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہوئیں۔

آیت ۱۰

: الَّذِيْنَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٰتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الأُمُوْرِ﴿۴۱

:ترجمہ

          یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ (سورہ حج آیت:۴۱)

: تشریح

:ایمان والوں کا اقتدار کے وقت طرز عمل

اس آیت میں مسلمانوں کو اقتدار ملنے پر ان  کے طرز عمل کو بیان کیا گیا ہے کہ ایمان والے ایسے لوگ ہیں، جب ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ۔ اقتدار و حکومت کے مل جانے کے بعد ان کی پیشانیاں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہیں اور وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ کی ادائیگی کرتے ہیں،لوگوں کو نیکی کی دعوت و تلقین کرتے ہیں اور لوگوں کو برائیوں اور گناہوں سے روکتے ہیں۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ہم نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اللہ تعالی نے ہمیں اقتدار بخشا تو ہم نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا۔ (الدرالمنثور:جلد۶، صفحہ۵۹)

ان آیات میں ان لوگوں کے لیے بھی ہدایت ہے جن کو اللہ تعالی نے ملک کی ذمہ داری عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے اقتدار اور دور حکومت میں وہ کام سر انجام دیں جو خلفائے راشدین نے اپنے وقت اور دور حکومت میں انجام دیے۔

Quiz

advanced divider