سبق نمبر 05، منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ و تشریح

  • Home
  • سبق نمبر 05، منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ و تشریح
Shape Image One

منتخب قرآنی آیات

advanced divider

:منتخب قرآنی آیات کا ترجمہ و تشریح

:سوال

مندرجہ ذیل قرآنی آیت کا ترجمہ اور تشریح تحریر کریں۔

آیت۱

وَاٰتُوْا الْيَتَامٰى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوْا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَهُمْ إِلىٰ أَمْوَالِكُمْ إِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا﴿۲

:ترجمہ

اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل مت کرو اور ان یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ ۔ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔(سورۃ النساء آیت ۲)

:تشریح

اموال یتامیٰ کا حکم:  اس آیت میں یتیموں کے مال کا تحفظ فرمایا گیا ہے اور اس سے متعلق تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔

۱۔ یتامیٰ کے اموال ان کے حوالے کر دو ۔

پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ جو یتیم بچے تمہاری پرورش میں ہیں، ان کے مال جو انہیں میراث میں ملے ہیں یا کسی نے انہیں ہبہ (تحفے)میں دے دیے ہیں، ان کے بالغ ہونے تک ان کے مال کی حفاظت کرو اور جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔

۲۔  یتیموں کے اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرو۔

 دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ یتیم بچے جو تمہاری پرورش میں ہیں اور ان کے مال جو تمہارے قبضے میں ہیں، ان کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے تبدیل نہ کرو یعنی ان کا جو اچھا اور عمدہ مال ہے، اس کو اپنا مال نہ بناؤ اور اپنا خراب مال ان کے حساب میں نہ لگاؤ ۔

۳۔  یتیموں کے مال کو اپنے مال میں ملا کر مت کھاؤ ۔

تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ یتیم بچے جو تمہاری پرورش میں ہیں، ان یتیموں کے مال میں کسی بھی قسم کی خیانت نہ کرو یعنی ان کے مال میں سے کچھ حصہ اپنے مال میں ملا کر یا  ان کے مال کو کسی بھی اور طریقے سے مت کھاؤ،  چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، ایسا ہرگز نہ کرو ۔

ان تینوں احکام کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یتیم کے مال میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے لہذا اس سے ہر شخص کو بچنا چاہیے۔

آیت ۲

وَاٰتُوْا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْئًا مَّرِيْئًا ﴿۴

:ترجمہ

: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔  ہاں اگر وہ خود اس مہر کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوشگواری اور مزے سے کھا لو ۔  (سورۃ النساء آیت:۴)

:تشریح

:مہر کی ادائیگی کا حکم

اس آیت میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کے مہر کی خوش دلی سے ادائیگی کریں کیونکہ مہر عورتوں کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی مرد کے ذمہ واجب (لازمی)ہے یعنی جب مرد و عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں تو شوہر پر ایک ذمہ داری بیوی کے حق مہرکی ادائیگی بھی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  تمام شرائط میں وہ شرط پوری کیے جانے کی زیادہ مستحق ہے جس کے ذریعے تم عورتوں کی عصمت کے مالک بنتے ہو ۔ (سنن ابن ماجہ )

اس آیت میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ مہر کی معافی کا تمام تر اختیار عورت کو حاصل ہے کیونکہ یہ مہر عورت کا حق ہے ۔ اس لیے اگر وہ مہر اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے خود معاف کر دے تو معاف ہو جاتا ہے۔لیکن اگر شوہر اس کو جبراً مجبور کرے، مہر معاف کرائے تو شوہر گنہگار ہوگا اور عذاب الہٰی کا مستحق بھی ٹھہرے گا ۔

:مہر کی اقسام

مہر کی ادائیگی دو طریقوں سے کی جاتی ہے ۔

مہر معجل :              وہ مہر جو شوہر کو فوری(جلدی) ادا کرنا ہوتا ہے ۔

مہر مؤجل:     وہ مہر جو شوہر کو زوجہ کے طلب کرنے پر ادا کرنا ہوتا ہے۔مہر کی اس قسم کو عند الطلب بھی کہاجاتا ہے۔

آیت ۳

وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوْا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوْا اللّٰهَ وَلْيَقُوْلُوْاْ قَوْلًا سَدِيْدًا ﴿۹

:ترجمہ

اور چاہیے کہ وہ لوگ ڈریں جو اپنے پیچھے ضعیف، کمزور بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں اور ان پر خوف ہوتا ہے ۔ سو یہ لوگ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات کریں۔  (سورۃ النساء آیت:۹)

تشریح

:یتیموں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا رویہ

اس آیت میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آنے کے بارے میں بڑے خوبصورت انداز میں متوجہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ یتیموں کی پرورش اور سرپرستی کر رہے ہیں، ان کو چاہیے کہ ان یتیم  بچوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک اور ان کے حقوق کی پاسداری کا خیال رکھیں جیسا کہ اگر وہ انتقال کر جائیں تو انہیں اس بات کی فکر رہے گی کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا ؟ ان کی تعلیم و تربیت کیسی ہوگی؟ ان کی کون سرپرستی کرے گا اوروہ کیسی سرپرستی کرے گا؟  وغیرہ وغیرہ تو تمہیں بھی چاہیے کہ تم یتیموں کے ساتھ خوش دلی، حسن سلوک اور ان کے حقوق کا خیال رکھو اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کا بندوبست کرو اور ان سے کسی بھی قسم کی سختی یا سخت انداز نہ اپناؤ جو ان کے دل ٹوٹنے یا احساس کمتری کا سبب بنے بلکہ ان کی اصلاح کی فکر کرو اور ان کے ساتھ نہایت نرم اور اچھے طریقے سے بات کیا کرو ۔ لہذا جو شخص بھی یتیم کی پرورش اور سرپرستی کر رہا ہو ، اسے چاہیے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے ، ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی،  ان کا حق مارنے،  ان کے مال کو ہڑپ کر جانے (کھاجانے )، ان پر ظلم و ستم کرنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اللہ تعالی سے ڈرتا رہے۔

آیت۴

إِنَّ الَّذِيْنَ يَأْكُلُوْنَ أَمْوَالَ الْيَتَامٰى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ﴿۱۰

:ترجمہ

بے شک وہ لوگ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں،وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہونا ہوگا ۔ (سورۃ النساء آیت:۱۰)

:تشریح

: یتیموں کا مال نا حق کھانا

اس آیت میں اللہ تعالی نے یتیموں کا مال نہ کھانے کی وعید اور سخت عذاب کا انجام بتایا ہے ۔ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا ہی سب کچھ ہے بلکہ آگے آنے والی گھاٹی بہت سخت ہے۔ یوم آخرت میں حساب و کتاب ہے۔ یتیموں کا مال کھا جانا کوئی آسان بات نہیں کیونکہ جو شخص ناحق کسی یتیم کا مال کھاتا ہے گویا اپنے پیٹ میں آگ بھر رہا ہے اور بالآخر قیامت میں ایسے شخص کا انجام ایسا ہی ہونا ہے یعنی اس کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یتیم کا مال ناحق طور پر کھانے والا قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے پیٹ کے اندر سے آگ کی لپیٹیں اس کے مُنہ، ناک اور کانوں اور آنکھوں سے نکل رہی ہوں گی۔

آیت ۵

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْكُلُوْٓا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوْٓا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا ﴿۲۹

:ترجمہ

اے ایمان والو!  آپس میں ایک دوسرے کے اموال کو ناحق طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی تجارت آپس کی رضامندی سے ہو اور مت قتل کرو اپنی جانوں کو ۔ بے شک اللہ تم پر بہت مہربان ہے ۔ (سورہ النساء آیت:۲۹)

: تشریح

:ناحق ایک دوسرے کا مال کھانے کی ممانعت اور تجارت کے اصول

:  اس آیت میں آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل (ناحق )طریقے سے کھانے کی ممانعت بیان کی گئی ہے یعنی حرام طریقے سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ مثلا سود لے کر، چوری کر کے،خیانت کر کے، رشوت ، جوئے بازی سے، چھین کر وغیرہ وغیرہ اور اس طرح کے دوسرے غیر شرعی طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ کیونکہ یہ سب حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے جس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔  

دوسرا حکم : ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہوئے مال حاصل کرنا اور اس کا کھانا جائز اور حلال ہے یعنی تجارت کے ذریعے وہ مال حاصل کرنا جائز اور حلال ہے جو آپس کی رضامندی کے ساتھ ہو کیونکہ اسلام میں تجارت کرنا حلال قرار دیا گیا ہے لہذا تجارت سے حاصل شدہ مال جو اسلامی تعلیمات اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہو، جائز اور حلال ہے۔

اپنے آپ کو قتل یعنی خودکشی کی ممانعت :

تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ جیسے کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے اسی طرح اپنی جان کو ضائع کرنا یعنی خودکشی کرنا بھی حرام ہے۔ یہ جان اس ذات پاک کی ملکیت اور امانت ہے جس نے انسان کو تخلیق کیا ہے اور اسے جان بخشی ہے۔  کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ خود کشی کر کے اپنی جان ضائع کر دے۔ بعض لوگ زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ آخرت کا عذاب ان دنیاوی تکلیفوں سے بہت سخت اور بہت زیادہ ہے۔ آخر میں فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے لہذا اس نے جو حکم بتائے ہیں، ان کو اپنے حق میں خیر سمجھو۔

Quiz

advanced divider