سبق نمبر 05، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح

  • Home
  • سبق نمبر 05، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح
Shape Image One

منتخب احادیث

advanced divider

ترجمہ /تشریح /سوالات کے مختصر جوابات/مختصر جوابات کے سوالات(۱۳-۷)

۷ حدیث

إنَّ أكْمَلَ الْمُؤمِنِيْنَ إيْمَانًا أحْسَنُهُمْ خُلُقًا

:ترجمہ

مومنوں میں کامل ترین ایمان والا وہ شخص ہے جو ان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھا ہے۔ (سنن ابو داؤد)

:تشریح

اس حدیث میں اچھے اخلاق کی صفات سے مالامال شخص کو کامل ترین مومن قرار دیا گیا ہے اور تمام لوگوں کو دعوت عام دی گئی ہے کہ وہ بھی اچھے اخلاق اپنا کر بہترین مومن بن سکتے ہیں۔

:اخلاق کی تعریف

حسنِ اخلاق دراصل روزمرہ زندگی میں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، اپنے نفس اور مخلوق خدا کے ساتھ ایک مسلمان کے مثبت اور شریعت کے اصولوں کے مطابق طرز عمل اور رویے کا نام ہے۔ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اس سے تعلق جوڑو جو تم سے قطع تعلق کرے اور اسے عطا کرو جو تمہیں محروم کرے اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو۔

:اخلاق کی اہمیت

حسن اخلاق اپنا کر کامل ترین مومن بننے کے لیے نہ تو مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اعلی تعلیم کی اور نہ اثر و رسوخ کی۔ ہر شخص خواہ امیر ہو یا غریب،  حاکم ہو یا رعایا،  استاد ہو یا شاگرد،  اچھے اخلاق اپنا کر کامل ترین مومن لوگوں کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی خوشی حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی خوبصورتی اس کے اچھے اخلاق میں ہے۔

:حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بہترین اخلاق

بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بہترین اخلاق کو ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں:  حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ تو گفتگو میں حد سے تجاوز فرماتے تھے اور نہ بدکلامی فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ ایک اور حدیث میں یہی بات مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے کہ اچھے اخلاق والا شخص ہی اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں بہترین شخص ہے۔

:بعثت نبوی کا مقصد

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی تشریف آوری کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اور اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  بے شک اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں۔

حدیث ۸

خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ

:ترجمہ

لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچائے۔ (طبرانی)

:تشریح

شریعت میں دو طرح کے حقوق ہیں:  حقوق اللہ یعنی اللہ کے حقوق اور حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق۔

حقوق اللہ کی بھی بڑی اہمیت ہے لیکن اگر اللہ تعالی چاہے تو وہ اپنے حقوق معاف کر سکتا ہے لیکن بندوں کے حقوق خدا بھی اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک بندے خود ان حقوق کو معاف نہ کر دیں۔ایک شخص خدا کو راضی رکھتا ہے، اس کی خوب عبادت کرتا ہے لیکن بندوں کے ساتھ اس کا سلوک اور برتاؤ اچھا نہیں ہے تو ایسا شخص ہرگز اچھا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں

:بہترین شخص

سب سے بہتر شخص وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے، انہیں نفع پہنچائے، ان سے ہمدردی کرے اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرے۔ اگر اس کا بھائی تکلیف میں ہے تو اس کی تکلیف دور کرے اور اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان نہ کرے، ایک اچھا انسان وہ ہے جو اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دے، ملک اور ملت کے لیے اپنے خدمات وقف کرے، انسانیت کے کام آئے اور خود غرضی سے کام نہ لے بلکہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرے۔

:احادیث مبارکہ میں خدمت خلق کی ترغیب

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے اور اپنے تو کیا غیروں کے بھی کام آتے تھے مثلا کسی کی بکری یا اونٹنی کا دودھ  نکال دینا، معذوروں کو سودا لا دینا یا اس قسم کے دوسرے کام کر دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت تھی۔  ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص راستے سے ایذا دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ایک اور حدیث میں یوں ارشاد ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان کسی قسم کی کوئی کاشتکاری کرے، پھر اس سے کوئی جانور یا انسان کھا لے تو وہ صدقہ ہے۔ ( الحدیث)

:سچا مسلمان خادم خلق ہوتا ہے

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے مثلاً ایک مسلمان مختلف رفاہی خانے بناتا ہے جہاں دکھی انسانیت سکون پاتی ہے۔  یہ ادارے بناتا ہے جہاں معذور اور بے سہارا لوگوں کی مدد اور نگہداشت کی جاتی ہے، ہسپتال اور شفا ایک سچے مسلمان کی نشانی ہے۔  لوگوں کی خدمت سے انسان لوگوں کے دلوں میں عزت و احترام پاتا ہے،  خدا کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالی کی بخشش کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمام لوگ گویا کہ اللہ تعالی کا کنبہ ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک ان میں وہی سب سے زیادہ محبوب ہیں جو اس کے کنبے کے لیے زیادہ مفید ہیں۔ (سنن ابو داؤد)

حدیث ۹

اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلىٰ

:ترجمہ

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔  (بخاری و مسلم)

تشریح

: حلال کمانے کے لیے محنت کرنا

اس حدیث میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ دوسروں کو دینے والا، دوسروں کو کھلانے والا، دوسروں کی مدد کرنے والا بنے۔ ایسا انسان اس شخص سے بہتر ہے جو دوسروں سے لینے کا عادی ہو۔  لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بھیک مانگتا ہو۔  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: تم میں سے کوئی شخص صبح کے وقت جائے اور اپنی کمر پر لکڑیاں اٹھا کر لائے اور صدقہ کرے اور اس کے ذریعے سے لوگوں سے بے نیاز ہو جائے تو یہ کام اس سے بہتر ہے کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے یعنی بھیک مانگے۔ (سنن ترمذی حدیث ۶۱۴)

لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک انسان جو بھی خرچ کرتا ہے، اسے صدقہ خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنا بڑے نتائج کا حامل ہے۔ (سنن ترمذی)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  بلا شبہ صدقہ و خیرات کی وجہ سے اللہ تعالی بری موت کے ۷۰ دروازوں کو بند کر دیتا ہے ۔ (الحدیث ) لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم حلال روزی کمائیں اور محنت کریں کیونکہ محنت میں عظمت ہے اور اپنے مال کو خوب اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔

حدیث ۱۰

مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَقَضٰى مَنَاسِكَهٗ ، وَسَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِهٖ وَيَدِهٖ غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ

:ترجمہ

جس نے اس گھر (خانہ کعبہ) کا حج کیا ،اس کے مناسک بخوبی ادا کیے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (الحدیث)

:تشریح

اس حدیث میں حج کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔  حج اسلام کا پانچواں اہم ترین رکن ہے۔  اس حدیث مبارکہ میں ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ حج کرنے والوں اور حج کے دوران اور بعد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والوں کو گناہوں کی معافی کی خوشخبری سنائی گئی ہے

:حج کے معنی

حج کا لفظی معنی زیارت کا قصد کرنا ہے۔  اصطلاح میں ۹ ذوالحجہ کے زوال آفتاب کے بعد سے ۱۰ذوالحجہ کی فجر تک حج کی نیت سے احرام باندھ کر میدان عرفات میں وقوف کرنا اور اس کے بعد کسی وقت بھی کعبے کا طواف زیارت کرنا حج کہلاتا ہے ۔واضح رہے کہ حج کی مکمل ادائیگی میں ۸ذوالحجہ سے ۱۲ ذوالحجہ تک تقریباً ۵دن صرف ہوتے ہیں۔

:مناسک حج سے مراد

اس حدیث میں مناسک حج کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے “حج کرنے کا طریقہ” اور وہ کام جو حج کے لیے حاجی کو ضروری کرنے ہوتے ہیں، وہ کام مندرجہ ذیل ہیں:

٭نیت کرنا (شرط) ٭ احرام باندھنا (شرط ) ٭تلبیہ پڑھنا (سنت )

٭زیارت کعبہ (سنت ) ٭استلام (سنت ) ٭ طواف (سات چکر) (فرض )

٭آب زمزم پینا (سنت ) ٭مقام ابراہیم کے پاس نماز (سنت )

٭سعی کرنا (واجب) ٭منٰی میں قیام (سنت)

٭ وقوف عرفہ (فرض) ٭ مزدلفہ میں رات گزارنا (واجب)

٭ قربانی (واجب) ٭ طواف زیارت (فرض)

٭ رمی جمرات (واجب)

٭طواف ودا ع/رخصت  (واجب)

٭  روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت (مستحب)

اس حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ بیت اللہ کا حج اور اس کے مناسک کی ادائیگی اس طرح ہو کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں، اگر اس حالت میں حج کیا تو پھر اس کے پچھلے گناہ معاف ہو گئے۔

:پس منظر

: حج فرض ہونے کے پہلے سال یعنی سن ۹ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ۳۰۰صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج کی سعادت حاصل کی۔سن۱۰ہجری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زندگی کا پہلا اور آخری حج تقریباً ایک لاکھ ۲۴ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ادا فرمایا۔

:حج کی فرضیت

حج ہر اس بالغ مسلمان مرد و عورت پر زندگی میں ایک بار اللہ کی طرف سے فرض ہے جو اس کی طرف جانے کی قدرت رکھتا ہو یعنی خرچ اور جسمانی طاقت رکھتا ہو۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : اور لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج ہے جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔  (سورہ آل عمران آیت: ۹۷)

:حج کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹاتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے زنگ کو مٹاتی ہے اور حج مبرور (مقبول) کی جزا صرف جنت ہے۔ ( جامع ترمذی)

حاجی کی مغفرت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  حج کرنے والے کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جس کے لیے حج کرنے والا استغفار کرے گا اس کی مغفرت کی جائے گی۔ ( ترغیب و ترہیب)

:بلا حساب جنت میں داخلہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جو شخص عمرے کے لیے روانہ ہوا اور راستے میں مر گیا، اس سے حساب نہیں لیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جا۔  (مجمع الزوائد)

حدیث ۱۱

إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلىٰ أَجْسَامِكْمْ، وَلَا إِلىٰ صُوَرِكُمْ، وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلىٰ قُلُوْبِكُمْ

:ترجمہ

بے شک اللہ تعالی تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔  (مسلم)

: تشریح

: قلب اور اخلاص عمل

اس حدیث میں انسان کے اعمال کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اعمال میں نیت کی درستگی اور اخلاص عمل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نیت صاف اور عمل اخلاص پر مبنی ہو۔ کوئی بھی عمل تبھی اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت کو پہنچتا ہے جب وہ رضائے الہٰی کے حصول کے ساتھ ہو۔ اگر ظاہری حسن و جمال ہی اللہ کی نظر میں قابل قدر ہوتے تو سیاہ فام حبشی صحابی حضرت بلال حبشیؓ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عزت ، مقام اور سعادت مندی حاصل نہ کر سکتے جبکہ دوسری طرف ابو جہل (عمرو بن ہشام) سرخ و سفید اور خوبصورت شکل و صورت کا مالک تھا مگر اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں اس کی کوئی عزت اور مقام نہیں تھا بلکہ اسے بدبخت قرار دیا گیا۔

لہذا اسلام، ایمان، عبادت اور اطاعت کی قبولیت کا دارومدار قلب اور اخلاص نیت کو قرار دیا گیا ہے اور وہی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے جو خلوص دل سے اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: کہہ دو کہ بےشک میری نماز میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔

اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی اس نے نیت کی ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم)

حدیث ۱۲

إيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإنَّ الظَّنَّ أكْذَبُ الْحَديْثِ

:ترجمہ

بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ (صحیح بخاری)

: تشریح

:بدگمانی کی برائی سے بچنے کا حکم

اس حدیث مبارکہ میں انسان کو کسی دوسرے انسان سے بدگمان ہونے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یوں تو تمام اخلاق رزائل یعنی برے اخلاق انسانی شخصیت اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں لیکن اس میں بدگمانی ایک ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔  بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا جس کا نہ تو یقین ہو اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی گواہ یا شواہد ہوں۔ اس لیے قرآن کریم میں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اے ایمان والو!  زیادہ تر گمان سے بچا کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (سورہ حجرات آیت ۱۲)

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دو خیالات انسان کے دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔  ایک خیال اللہ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی کی طرف راغب کرتا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور بھلائی سے روکتا ہے۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہو جائے، شیطان اس کے لیے کینہ، بغض اور تجسس جیسے گناہ سرزد کروانے کے لیے راہ ہموار کر دیتا ہے۔

لہذا بدگمانی ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود پھنستا چلا جاتا ہے اور انسان حقیقت اور سچائی کا ادراک کرنے سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے بدگمانی کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔

حدیث ۱۳

مَنْ دَلَّ عَلىٰ خَيْرٍ فَلَهٗ مِثْلُ أجْرِ فَاعِلِهٖ

:ترجمہ

جس نے کسی شخص کی اچھائی یا نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جو نیکی یا اچھائی کرنے والے کو ملے گا۔ (صحیح مسلم)

: تشریح

:نیکی کی طرف رہنمائی کرنا

اس حدیث میں ہمیں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کو تلقین کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ تم بہترین امت ہو۔ تم لوگوں کے لیے نکالے گئے ہو۔ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (سورہ آل عمران، آیت: ۱۰)

:امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم

امربالمعروف کا مطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کے معنی برائی سے روکنا کے آتے ہیں یعنی ایک مسلمان کو چاہیے کہ خود بھی نیک کام کرے اور لوگوں کو بھی نیکی کی طرف لائے۔  خود بھی گناہوں سے بچے اور لوگوں کو بھی گناہوں سے روکے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالی اس شخص کو خوش و خرم اور سرسبز و شاداب رکھے جس نے ہم سے بات سنی اور اسے یاد رکھا اور دوسروں تک پہنچا دیا۔ (سنن ترمذی)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے،  تم لوگ ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور گناہوں سے لوگوں کو روکو گے ورنہ اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا۔ پھر تم دعائیں بھی کرو گے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ (سنن ترمذی)