سبق نمبر 04، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح

  • Home
  • سبق نمبر 04، منتخب احادیث کا ترجمہ کا تشریح
Shape Image One

منتخب احادیث

advanced divider

ترجمہ /تشریح /سوالات کے مختصر جوابات/مختصر جوابات کے سوالات(۱-۶)

حدیث ۱

خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ

:ترجمہ

لوگو!  تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)

:تشریح

: قرآن کریم کی عظمت اور اس کو سیکھنا سکھانا

اس حدیث مبارکہ میں قرآن مجید کی عظمت اور فضیلت کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس شخص کو تمام لوگوں میں سب سے بہترین شخص قرار دیا گیا ہے جو قرآن کریم کو پڑھے سیکھے اور اس پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم کی تعلیم دے۔کیونکہ ا   س کتابِ ہدایت میں انسانوں کوزندگی گزارنے کا طریقہ،  اس کے اصول اور مکمل ضابطہ حیات بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے قرآن کریم میں اللہ تعالی لوگوں کو غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ أَمْ عَلىٰ قُلُوْبٍ أَقْفَالُهَا ﴿۲۴﴾

بھلا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ (سورہ محمد آیت:۲۴)

قرآن کریم کا علم ایسا زبردست علم ہے کہ اس کے فضائل بے شمار ہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے والدین کو سونے کا تاج پہنایا جائے گا (الحدیث)

پھر یہ ایسی عظیم الشان اور بابرکت کتاب ہے جس کے پڑھنے پر ثواب اوراس کو دیکھنے پر بھی ثواب ملتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے: نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جو شخص قرآن کریم کو پڑھتا ہے اس کو ہر حرف پر ۱۰نیکیاں ملتی ہیں اور الف، لام، میم ایک حرف نہیں بلکہ الف الگ حرف، لام الگ حرف اور میم الگ حرف ہے۔ (الحدیث)

حدیث۲

أَوْلَی النَّاسِ بِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَکْثَرُھُمْ عَلَيَّ صَـلَاةً

:ترجمہ

قیامت کے دن لوگوں میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا

جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا۔ (سنن ترمذی)

:تشریح

:درود شریف پڑھنے کی فضیلت اور اہمیت

اس حدیث میں درود شریف پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے ۔ درود شریف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بڑے خوبصورت انداز میں درود شریف کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے تاکید و ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ﴿۵۶﴾

بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں لہذا اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ ( سورہ احزاب آیت: ۵۶)

درود شریف دراصل اقرار و اعتراف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمارے اوپر بے انتہا احسانات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی پوری زندگی امت کی فکر و غم میں گزاری۔ دنیا سے جاتے ہوئے بھی امت کو یاد رکھا اور کل قیامت کے دن جب نفسانفسی کا عالم ہوگا ،اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار اے میرے رب!  میری امت ، اے میرے رب! میری امتہوگی۔

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسانات کا بدلہ اتار ہی نہیں سکتے۔ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو ان کے طریقوں /سنتوں پر عمل کرنا اور کثرت سے ان پر عقیدت و محبت اور جانثاری کے جذبے کے ساتھ درود شریف کا ورد کرنا ہے۔

ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے: حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے ۔ میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار محسوس کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:  میرے پاس حضرت جبرائیل تشریف لائے ہیں اور فرمایا:  اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!  اللہ تعالی ارشاد فرما رہا ہے کہ کیا آپ اس بات پر خوش ہیں کہ جب بھی کوئی شخص آپ پر درود بھیجے تو میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا؟
  (سننن نسائی)

اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے، اس کے لیے عافیت کا ایک دروازہ کھول دیا گیا۔ (الحدیث)

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے پیارے رسول اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر خوب کثرت سے روزانہ درود شریف بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!

حدیث ۳

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ

:ترجمہ

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح بخاری)

تشریح

:حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تقاضا

اس حدیث میں ایک ایمان والے کو اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت کامل و مکمل ہوتا ہے جب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت اپنے والد، اپنی اولاد اور دنیا کے تمام رشتوں ناتوں اور تعلق والوں سے زیادہ ہو جائے۔ امت محمدیہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم ترین حق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنا ہے اور ایسی محبت مطلوب ہے جو مال و دولت، آل اولاد بلکہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دین اسلام کی بنیاد اور فرائض میں سے اہم فرض ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

اَلنَّبِيُّ أَوْلىٰ بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنفُسِهِمْ

ایمان والوں کے لیے یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی جانوں سے زیادہ قریب تر اور عزیز ہیں ۔ (سورہ احزاب آیت: ۶)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب و احترام اور محبت ایمان کی بنیاد ہے۔ جس کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت نہیں تو اس کا ایمان نہیں۔ انسانی محبت کے بلند ترین درجات میں اللہ کی محبت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہے۔

حدیث ۴

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلىٰ كُلِّ مُسْلِمٍ

:ترجمہ

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔  (سنن ابن ماجہ)

:تشریح

: علم کی تعریف

علم کے لغوی معنی ہیں جاننا ۔ علم وہ نور اور صفت ہے جس کے ذریعے چیزیں خوب روشن اور واضح ہو جاتی ہیں۔ حقیقی علم یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کی معرفت حاصل ہو ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُوْنِ﴿۵۶﴾

اور ہم نے انسانوں اور جنوں کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ عبادت کریں(یعنی اللہ کی معرفت حاصل کریں)  (سورہ الذاریات آیت: ۵۶)

علم سے مراد قرآن و حدیث اور فقہ یعنی اسلامی قانون کا علم ہے، جو فرض ہے ۔ اسی علم کو صحابہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل کیا تھا اور یہی آخرت میں نجات کا باعث ہے۔

:مروجہ علوم و فنون کی اہمیت

آج کل کے زمانے میں جدید علوم سیکھنا تاکہ مسلمان ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو جائیں، بہت ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : علم میرا ہتھیار ہے ۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور جس نے کسی غیرقوم کی زبان سیکھی وہ اس کے ہر شر سے محفوظ ہو گیا۔  آج کی زبان ٹیکنالوجی اور سائنس کی زبان ہے اور جو بھی تجارت و زراعت وغیرہ میں ان سے استفادہ کرے گا، یقینا ترقی کرے گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات میں جدید علوم اور ہنر حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

:علم کی فضیلت

قرآن کریم نے علم کی فضیلت اور اس کے مرتبے کی بلندی کا تذکرہ کیا ہے۔ علم کی فضیلت کو بیان کرنے کے لیے اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کا ذکر کرنے کے فورا بعد اہل علم کا ذکر کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

 

شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهٗ لَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُوْلُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ

اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی ہے، اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے انصاف کے ساتھ (کائنات) کا انتظام سنبھالا ہوا ہے۔ (سورہ آل عمران آیت: ۱۸)

علم نافع کی دعا:

اللہ تعالی سے علم نافع میں اضافے کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ہے :

وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴿۱۱۴﴾

اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کہو ، یا اللہ! میرے علم میں اضافہ کر دے۔ (سورہ طٰہٰ آیت: ۱۱۴)

حدیث ۵

اَلصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّیْنِ

:ترجمہ

نماز دین کا ستون ہے۔ (الحدیث)

: تشریح

: اس حدیث مبارکہ میں نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے ترک کرنے کو دین کی عمارت گرا دینے کے برابر عمل قرار دیا گیا ہے ۔ اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے ۔نماز دوسرا رکن یعنی دوسرا ستون ہے۔ نماز ایسا رکن ہے جو دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے گویا ہم جس ایمان کا اظہار کرتے ہیں اس کی بار بار گواہی پیش کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ستون کے بغیر چھت قائم نہیں رہ سکتی،اسی طرح دین اسلام کو قائم رکھنےکے لیے نماز کی پابندی ضروری ہے۔

:نماز کا بنیادی مقصد

نماز کا بنیادی مقصد انسان کے ظاہر و باطن کو پاک صاف کر کے اسے سنوارنا ہے۔ نماز کے ذریعے بندہ دنیا میں اللہ تعالی سے مناجات کرتا ہے اور اللہ کا مقرب بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نماز بے حیائی، ناشائستگی اور برائی سے انسان کو روکتی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:                           إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ

بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (سورۃالعنکبوت آیت: ۴۵)

:متعدد بار ذکر

قرآن مجید میں۷۰۰ بار نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا

بے شک نماز ایمان والوں پر مقررہ وقت پر لازم ہے۔  (سورہ نساء آیت: ۱۰۳)

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

حَافِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى

سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی حفاظت کرو۔ (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۸)

قرآن مجید میں۷۰۰ بار نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا

بے شک نماز ایمان والوں پر مقررہ وقت پر لازم ہے۔  (سورہ نساء آیت: ۱۰۳)

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

حَافِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى

سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی حفاظت کرو۔ (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۸)

:نماز کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

 بہت سی حدیثوں میں نماز کی تاکید آئی ہے:

  • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کفر اور ایمان میں نماز کا فرق ہے۔
  • حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچ نمازوں کی مثال اس میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے کے پاس سے گزر رہی ہو، وہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  پانچ نمازیں بھی گناہوں کو مٹا دیتی ہیں جیسا کہ پانی میل کچیل کو صاف کر دیتا ہے۔ ( صحیح مسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:  نماز مومن کی معراج ہے اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

حدیث ۶

كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ

:ترجمہ

تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ (صحیح بخاری)

: تشریح

: اجتماعی ذمہ داری

اس حدیث مبارکہ میں معاشرے کے ہر فرد کو اس کی حیثیت کے مطابق اخلاقی، دینی، معاشرتی، انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ہر شخص اپنی جگہ نگہبان اور ذمہ دار ہے ۔ جو لوگ اس کے زیر اثر ہیں، وہ اس کی رعیت ہیں جن کے بارے میں وہ قیامت کے روز خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

مثلاً باپ اپنے خاندان اور اولاد کے لیے ذمہ دار ہے۔  اللہ تعالی اس سے پوچھے گا کہ تم نے اپنے خاندان کو اللہ کی راہ پر چلایا  یاشیطان کے راستے پر؟  اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کیسے کی؟ انہیں حلال روزی کھلائی یا حرام؟  اسی طرح شوہر بیوی کا ذمہ دار ہے کہ تم نے بیوی کا حق ادا کیا؟  اسے احکامات کا پابند بنایا؟یا اسے شتر بے مہار کی طرح آزاد چھوڑے رکھا؟   اسی طرح بھائی اپنی بہن کا ذمہ دار ہے۔

:ہر مسلمان ذمہ دار ہے

حدیث کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہر مسلمان ذمہ دار ہے خواہ وہ باپ ہو، بیٹا ہو، ماں ہو یا افسر ،ہر محکمے کا افسر اللہ کی عدالت میں جوابدہ ہے ۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، گورنر اور وزیر بھی اپنے ضلعے اور صوبے کے ذمہ دار ہیں،صدر اور وزیر اعظم پورے ملک کے ذمہ دار ہیں۔ حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خدا کے قوانین پر عمل کروایا یا اپنا قانون چلایا؟ اپنے ماتحت لوگوں سے انصاف کیا اور ان کے حقوق ادا کیے یا  اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا؟

:حرف آخر

اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور اسے صحیح طور سے انجام دے تو معاشرہ صحیح بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے اور یہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر اس ارشاد نبوی پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ہمارے بے شمار الجھے ہوئے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔