سبق نمبر 04،حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ (مختصر سوالات کے جوابات)

  • Home
  • سبق نمبر 04،حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ (مختصر سوالات کے جوابات)
Shape Image One

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ

advanced divider

سوال۱

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندانی تعارف تحریر کیجئے۔

:جواب

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندان مکہ میں رہائش پذیر تھا۔ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو فہر سے تھا جبکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ قبیلہ بنو حارثہ میں سے تھیں جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کفر کی حالت میں غزوہ بدر میں قتل ہو گئے تھے۔

سوال۲

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش کب ہوئی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو اپنے دادا کی طرف کیوں منسوب کیا؟

:جواب

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ ۵۸۳ہجری،  مکہ مکرمہ میں عام الفیل کے ۱۱سال بعد عبداللہ بن جراح فہری کے گھر میں پیدا ہوئے۔ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کے والد عبداللہ غزوہ بدر میں کفر کی حالت میں قتل ہو گئے تھے،  اسلام کی عظمت و محبت نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نام کے ساتھ کافر والد کے نام کو لگانا پسند نہ کیا اور دادا کی طرف نسبت کر کے ابو عبیدہؓ بن جراح کہلائے گئے۔

سوال۳

حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح کو امینِ اُمت کیوں کہا جاتا ہے؟

:جواب

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نجران کے کچھ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہمارے پاس کوئی امین شخص بھیج دیجئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں ایسا شخص بھیجوں گا جو واقعی امین ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر صحابہ کرام کو اشتیاق ہوا کہ آپﷺ کس کو منتخب فرماتے ہیں!  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہؓ بن جراح کو منتخب فرمایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔ (صحیح بخاری)

سوال ۴

سریہ سیف البحر میں مسلمانوں کو خاص مدد کا کون سا واقعہ پیش آیا؟

:جواب

:واقعہ سریہ سیف البحر

البحر کے معنی ساحل سمندر کے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا پہلا سریہ تھا جو ہجرت کے ۷مہینے بعد رمضان سن  ا ہجری بمطابق ۶۲۳ء میں ہوا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں ۳۰مجاہدین پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیا تاکہ وہ شام سے آنے والے قریش کے ۳۰۰ افراد پر مشتمل قافلے کا پتہ لگائے جس کی قیادت ابو جہل کر رہا تھا۔ اس دستے میں انصار میں سے کوئی شامل نہیں تھا۔ مسلمان اس قافلے کی تلاش میں عیض کی جانب سے بحر احمر کے ساحل پر پہنچے تو ان کا کفار مکہ سے آمنا سامنا ہو گیا،  دونوں جنگ کے لیے صف آرا ہو گئے ۔مسلمانوں کا اس طرح جنگ کے لیے تیار ہو جانا ابو جہل کے لیے بے حد حیران کن تھا، اس سے پہلے کہ جنگ کا آغاز ہوتا،  قبیلہ جہینہ کا سردار مجدی بن عمر الجہنی درمیان میں حائل ہو گیا۔ یوں جنگ ٹل گئی اور کفار اپنے گھروں کو اور مسلمان مدینہ واپس لوٹ گئے۔

سوال ۵

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی سادہ زندگی سے کوئی ایک مثال پیش کیجئے۔

:جواب

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت میں بے حد سادگی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سادگی اور فقر کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ سے دعوت کی فرمائش کی اور ان کے یہاں کھانا کھانے گئے تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ سوکھی روٹی کے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے رکھ دیے، خود بھی تناول فرماتے رہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رو دیے۔

Quizzes