سبق نمبر 02، سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

  • Home
  • سبق نمبر 02، سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ
Shape Image One

سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

advanced divider

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کیجیے ۔

سوال ۲

واقعہ کربلا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟  اس پر ایک مختصر تحریر کیجیے۔

:جواب

:واقعہ کربلا

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ۴۰ھ میں شہادت کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت آیا ۔ان کے بعد ان کے بیٹے یزید کی تخت نشینی کا دور آیا ۔سیرت و تاریخ کی مستند کتابوں میں ذکر ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بڑی عزت و احترام کیا کرتے تھے اور کسی شہزادے کی طرح ان کا ادب اور احترام کرتے اور ان کا خیال رکھتے، ان کی طرف سے دی جانے والی سفارش کو تمام مشوروں پر ترجیح دیتے اور یزید کو بھی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی عزت اور احترام کی تلقین کرتے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸،صفحہ ۱۵)

لیکن یزید ایک بدبخت انسان تھا۔ اقتدار کے سنبھالتے ہی وہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے دشمنی پر اترآیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے زبردستی سختی کے ساتھ بیعت لینے کا مطالبہ کیا چنانچہ یزید نے والی مدینہ ولید بن عتبہ کو ایک مراسلہ (خط) لکھ کر بھیجا جس کا متن کچھ یوں تھا: حسینؓ بن علیؓ، عبداللہؓ بن عمرؓ،عبداللہؓ بن زبیرؓ کو گرفتار کرکے قید میں رکھو اور ان سے میرے نام پر بیعت لو۔ جب تک وہ میری بیعت نہ کر لیں، ان کو آزاد نہ کرنا۔  (البدایہ والنہایہ جلد ۸،صفحہ ۱۴۷)

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو امارت خانہ بلا کر یزید کا مطالبہ سنایا گیا۔  حضرت امام حسینؓ نے یزید کی  بیعت سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں یزید اور اس کے لوگ آپؓ کے دشمن ہو گئے۔ یزید نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر مکہ اور مدینہ کی زمین تنگ کر دی۔ کوفہ والوں نے امام حسینؓ کو خط لکھے کہ آپؓ یہاں تشریف لے آئیں، ہم اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے کوفہ روانگی سے قبل مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تھا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور خط لکھ کر مطلع کریں جس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی وہاں پر تشریف لے جا سکیں۔ کوفے کے لوگوں نے مسلم بن عقیل کی بڑی عزت افزائی کی جس پر مسلم بن عقیل نے امام حسینؓ کو خط لکھ بھیجا کہ کوفہ والے لوگ اہل بیت کے عقیدت مند ہیں،آپؓ تشریف لے آئیں۔ اُدھر جب یزید کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو اس نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیرؓ کو معزول کر دیا کہ انہوں نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سفیر خاص حضرت مسلم بن عقیل کی عزت افزائی کی ہے اور ابن زیاد کو کوفے کا گورنر مقرر کر دیا۔ ابن زیاد نے یزید کے حکم کی تعمیل میں مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا۔

دوسری جانب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۸ ذی الحجہ ۶۰ہجری کو مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے اور ۲محرم ۶۱ہجری  کو مقام کربلا پہنچ گئے ۔یزیدی لشکر کے فوجی عمر بن سعد نے یزید کی بیعت پر ایک بار پھر اصرار کیا اور اس بات چیت کا سلسلہ ۲محرم سے ۱۰محرم تک چلتا رہا لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کی بیعت سے صاف انکار کر دیا جس کے بعد ۱۰محرم ۶۱ہجری کو حق و باطل کے درمیان معرکہ شروع ہوا جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اہل و عیال اور جانثاروں کے ساتھ بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کر دیے گئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی سربلندی اور کلمہ حق کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا روضہ مبارک عراق میں کربلا کے مقام پر واقع ہے۔