باب (9) شہید

  • Home
  • باب (9) شہید
Shape Image One

شہید

advanced divider

سوال۱۔ جاوید شہید کا تعلق کس شہر سے تھا؟

جواب: جاوید کا تعلق شہر قصور سے تھا۔ وہ قصور کی ایک نواحی بستی میں رہتے تھے۔ 

سوال۲۔جاوید کے مکان کی حالت کس وجہ سے خراب تھی؟

جواب: جاوید کا تعلق شہر قصور سے تھا۔ وہ قصور کی ایک نواحی بستی میں رہتے تھے۔ ۵۶۹۱ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی گولا باری سے اُن کا مکان بہت ہی خستہ اور خراب حالت میں تھا۔ گھر والوں نے بھی اُس کی از سرِ نو مرمّت اور آرائش پر توجہ نہیں دی تھی۔ 

سوال۳۔رضیہ کیوں رو رہی تھی؟

جواب: ۶ ستمبر ۵۶۹۱ء جاوید کی سالگرہ کا دن تھا۔ رضیہ نے اپنے پیسوں سے بڑے بھائی کی سالگرہ کے لیے ہار خریدا تھا۔ وہ اپنے بھائی کے گلے میں ہار ڈالنا چاہتی تھی،لیکن جاوید اپنی سالگرہ کی تقریب ادھوری چھوڑ کر سرحدوں پر دشمن کے خلاف لڑنے چلا گیا اور کوشش کے باوجود وہ پھولوں کا ہار بھائی کے گلے میں نہ ڈال سکی۔ دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جاوید نے جامِ شہادت نوش کر لیا۔ آج ۶ ستمبر ۶۶۹۱ء جاوید کی چوبیسویں سالگرہ کا دن تھا۔ جاوید کے گھر والوں کا غم تازہ ہو گیا تھا۔اِس لیے رضیہ رو رہی تھی۔ 

سوال۴۔سالگرہ کے موقع پر جاوید کو کیا حکم ملا تھا؟

جواب: ۶ ستمبر ۵۶۹۱ء جاوید کی سالگرہ کا دن تھا،دروازے پر دستک ہوئی۔جاوید کے لیے محاذ پر جانے کا بلاوا آیا تھا۔وطن نے دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے  جاوید کو بلایا تھا۔لہٰذا جاوید اپنی سالگرہ کی تقریب ادھوری چھوڑ کر سرحدوں پر دشمن کے خلاف لڑنے چلا گیا۔ 

سوال۵۔ رضیہ کے والد نے فاطمہ کو تسلی دینے کے لیے کیا کہا؟

جواب: رضیہ کے والد نے اپنی بیوی فاطمہ کو تسلی دیتے ہوئے کہ، شہادت ایک سعادت ہے اور یہ سعادت دنیا میں بہت خوش قسمت کے حصے میں آتی ہے۔ شہادت کو تم کیا سمجھتی ہو۔ وطن کی خاطر جان دینا، یہ شرف ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتا ہے!

سوال۶۔رضیہ نے سایا دیکھ کر کس کا نام لیا؟

جواب: رضیہ صحن میں کھڑی تھی۔ اتنے میں کیا دیکھتی ہے کہ دروازے سے صحن کی طرف سایا بڑھتا ہے۔ یہ جاوید تھا۔ رضیہ نے بے تاب ہو کر پوچھا۔ بھائی جان آپ کہاں چلے گئے تھے؟میں آپ کے گلے میں پھولوں کا ہار بھی نہیں ڈال سکی تھی۔ ہمیں آپ کا کتنا انتظار تھا! 

سوال۷۔شاداں نے ہار کو اُٹھایا تو چیخ کر کیا بولی؟

 جواب: رضیہ کی پکار سُن کر ماں باپ اور شاداں صحن میں آتے ہیں اور رضیہ بتاتی ہے کہ ابھی ابھی بھائی جان آئے تھے اور میں نے اُن کے گلے میں ہار بھی ڈالا۔ شاداں آگے بڑھ کر ہار اُٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔یک دم چیخ مار کر پیچھے ہٹتی ہے اور کہتی ہے۔ لہو لہو، ہار پر لہو، سچ مچ لہو۔