سوال۱۔ ساہوکار نے اپنی ملکیت بیٹوں میں کس طرح تقسیم کی؟
جواب: ایک ساہوکار کے چار بیٹے تھے۔ اُس کے پاس بے شمار دُھن دولت تھی۔ ایک ایک دن وہ سخت بیمار ہوا۔ دوا دارو سے بات نہ بنی اور بچنا محال نظر آیا،تو چار دیگیں منگوا کر اپنی تمام جائداد کو اُن میں برابر تقسیم کر دیا اور اپنی چار پائی کے چار پایوں کے نیچے دفن کر دیا۔ بیٹوں سے کہا اپنا اپنا پایہ قرعہ اندازی کر کے مقرر کر لے اور میرے مرنے کے بعد اپنے اپنے حصے کی دیگ نکال لے۔
سوال۲۔ ساہوکار کے دو بیٹے کس بات پر سخت ناراض تھے؟
جواب:ساہوکار نے چار دیگوں میں تمام جائداد کو برابر تقسیم کر دیا اور اپنی چار پائی کے نیچے دفن کر دیا۔ بیٹوں سے کہا اپنا اپنا پایہ قرعہ اندازی کر کے مقرر کر لے۔ایک دن اُنھوں نے کُھدائی کر کے اپنی اپنی دیگ نکال لی۔ کیا دیکھا کہ ایک میں سونا چاندی ہے۔ دوسرے میں ہیرے جواہرات، تیسرے میں مٹی اور چوتھے میں چند ہڈیاں۔جن دو بھائیوں کی دیگوں میں سے مٹی اور ہڈیاں نکلیں وہ بہت سخت ناراض اور پریشان ہوئے
سوال۳۔ چاروں بھائی فیصلے کے لیے کس کے پاس گئے؟
جواب:چاروں بھائی یہ مسئلہ گاؤں کے معتبر لوگوں کے پاس لے گئے۔ لیکن وہ اس راز کو سمجھنے سے قاصر رہے اور کسی دانا شخص کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا چاروں بھائی بادشاہ کے پاس آئے۔
سوال۴۔ بادشاہ نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: چاروں بھائی فیصلے کے لیے بادشاہ کے پاس آئے اور اپنا مسئلہ بتایا۔ بادشاہ سیانا تھا۔ وہ معاملے کی حقیقت کو سمجھ گیا اور فیصلہ کیا کہ جس کی دیگ میں سونا چاندی ہے،اس کو سونا چاندی ہی ملے گا۔ جس کی دیگ میں ہیرے جواہرات تھے، اُس کو ہیرے جواہرات ملیں گے۔ مٹی والے کو مٹی ملے گی، لیکن اِس کا مطلب ہے، وہ باپ کی زمینیں سنبھالے گا اور جس کی دیگ میں ہڈیاں تھیں،وہ باپ کے مال مویشی لے گا۔ معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد چاروں بھائی خوش ہوئے اور باپ کی تقسیم پر راضی ہو کر گھر واپس آگئے۔
سوال۵۔ کہانی ”سیانا بادشاہ“ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
جواب:کہانی ”سیانا بادشاہ“ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہر باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں انصاف کے ساتھ تقسیم کر دے۔ تاکہ بعد میں باپ کے مرنے کے بعد اولاد کے درمیان کو جھگڑا نہ ہو۔ بادشاہ ِ وقت کو دانا اور معاملہ فہم ہونا چاہیے۔تاکہ وہ عوام کے مسائل کو انصاف کے ساتھ حل کر سکے۔ اِسی طرح ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ کسی معاملے میں اختلاف کے بعد بزرگوں اور بڑوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔