یہ جملہ سبق”بوڑھی کاکی“ سے لیا گیا ہے، جس کے مصنف ”منشی پریم چند“ہیں۔
: تشریح
مذکورہ جملے میں مصنف کہتے ہیں کہ بڑھاپا درحقیقت انسان کا دوسرا بچپن ہے۔ جس طرح انسان بچپن میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان بڑھاپے میں بھی دوسروں کی مدد کا محتاج بن جاتا ہے۔ بچوں کی طرح بات بات پر ناراض ہوتا ہے اور پھر معمولی سی دلجوئی پر مان جاتے ہیں اور ناراضگی ختم ہوجاتی ہے۔یہی حال بڑھاپے میں بوڑھی کاکی کا بھی ہو گیا تھا۔ بچوں کی طرح ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتی اورپھر معمولی نرمی اور محبت سے ناراضگی دور ہو جاتی۔
: حوالہئ مصنف
سبق”بوڑھی کاکی“ کے مصنف اردو کے پہلے افسانہ نگار ”منشی پریم چند“ ہیں۔
:تعارف ِ مصنف
منشی پریم چند اردو کے سب سے پہلے افسانہ نگار ہیں۔ آپ کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ آپ نے اپنے افسانوں میں ہندوستانی تہذیت و تمدن کو پیش کیا اور خاص طور دیہاتی ماحول کی منظر کشی کی۔ آپ نے غریبوں کی دکھ بھری زندگی کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی اور ظالم جاگیر داروں کے خلاف آواز اُٹھائی اور حکومت ِ وقت کے خلاف بھی آقاز بلند کی۔ آپ کے افسانے اور ناول دونوں ہندوستانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔”سوز ِ وطن“آپ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے، جو ۹۰۹۱ء میں منظر ِ عام پر آیا اور بعد میں اُس کو باغیانہ قرار دے کر نذر ِ آتش کیا گیا۔
: مرکزی خیال
افسانہ ”بوڑھی کاکی“ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بڑھاپے کہ مثال بچپن کی سی ہے۔ جس طرح بچپن میں انسان دوسرو ں کا محتاج ہوتا ہے اوربات بات پر روتا ہے اور دوسروں سے ناراض ہوتا ہے اور پھر ذرا سی دلجوئی پر مان جاتا ہے۔ اِسی طرح بڑھاپے میں بھی انسان کی زندگی کا انحصار دوسروں پر ہوتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بزر گوں کا ادب و احترام کریں۔ان کا سہارا بنیں اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں۔اسلام ہمیں بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کا رویہ اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:
وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا ادب واحترام نہ کرے۔
اِس کہانی سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہمیں وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور مال و دولت کی محبت میں نہ تو اپنوں سے نظریں پھیرنی چاہیے اور نہ ہی اپنے وعدوں کہ خلاف ورزی کرنی چاہیے۔
: حوالہئ مصنف
سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔
: خلاصہ
بڑھاپا بچپن کا دور ِ ثانی ہے۔یعنی بڑھاپا درحقیقت انسان کا دوسرا بچپن ہے۔ جس طرح انسان بچپن میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان بڑھاپے میں بھی دوسروں کی مدد کا محتاج بن جاتا ہے۔ بچوں کی طرح بات بات پر ناراض ہوتا ہے اور پھر معمولی سی دلجوئی پر مان جاتے ہیں اور ناراضگی ختم ہوجاتی ہے۔بوڑھی کاکی بڑھاپے میں بچوں کی طرح بات بات پر ناراض ہوتی تھی اور زور زور سے روتی تھی۔اُن کے شوہر کو فوت ہوئے عرصہ گزر چکا تھا اور سات جوان بیٹے بھی ایک ایک کر کہ فوت ہو گئے تھے۔ اس دینا میں ایک بھتیجے بُدھ رام کے سِوا اُس کا اور کوئی نہ رہا تھا۔ بوڑھی کاکی نے اپنی ساری جائیداد بدھ رام کے نام لکھوادی تھی۔ بُدھ رام نے جائیداد نام لکھواتے وقت تو بڑے وعدے کیے تھے، لیکن اُس کے بعد ایک وعدہ بھی پورا نہ کیا۔ جائیداد کی آمدنی پر وہ بیوی بچوں کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ بدھ رام کی بیوی رُوپا طبیعت کی بہت تیز تھی۔اُس کا رویّہ بوڑھی کاکی کے ساتھ بہت بُرا تھا۔ ساری گھر میں صرف بدھ رام کی بیٹی لاڈلی تھی، جو بوڑھی کاکی کا خیال رکھتی تھی۔
ایک دن بُدھ رام کے بیٹے سُکھ رام کا رسمِ تِلک تھا۔ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے اور طرح طرح کے پکوان پک رہے تھے۔ تازے پکوان کی خوشبو پورے گھر میں پھیلے ہوئی تھی۔بوڑھی کاکی اپنی کوٹھڑی میں بیٹھی تھی۔ کھانے کی خوشبو اس کو بے تاب کر رہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ گرما گرم پوریوں کے کڑاہ کے پاس وہ جا کر بیٹھ جائے۔ وہ بہ مشکل زمین پر گھسٹتی ہوئی کڑاہ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ روپااپنے کام کاج اور مہمانوں کی تواضع میں لگی تھی۔ جوں ہی بوڑھی کاکی پر نظر پڑی۔آپے سے باہر ہو گئی۔ پھر نہ مہمانوں کی موجودگی کا خیال کیا اور نہ کاکی کی عمر کا لحاظ کیا اور جلی کٹی سُنا دی۔بوڑھی کاکی روتی ہوئی اپنی کوٹھڑی میں واپس چلی گئی۔ مہمان کھانا کر چلے گئے۔ گھر والوں نے بھی کھانا کھا لیا۔ رات ہوگئی۔ لیک کسی کو بوڑھی کاکی کا خیال نہ رہا۔ البتہ لاڈلی نے اپنی پوریاں گُڑیوں کی پٹاری میں چھُپا کر رکھ دی تھیں۔ جب سب لوگ سو گئے تو لاڈلی پوریاں لے کر بوڑھی کاکی کے پاس چلی گئی۔ کاکی نے پوریاں کھا لیں۔ لیکن اُس کی بھوک نہ مٹ سکی۔ لاڈلی سے کہا، مجھے اُس جگہ لے چلو،جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ شاید وہاں کچھ ٹکڑے پڑے ہوں۔ میں وہ ٹکڑے کھا لوں گی۔ لاڈلی بوڑھی کاکی کو اُس چٹائی پر لے آئی۔
بوڑھی کاکی ٹکڑے چُن چُن کر کھا رہی تھی کہ رُوپاکی آنکھ کھلی۔کاکی کو ٹکڑے چُنتے دیکھ کر اُس کو بہت افسوس ہواکہ جس کی جائیداد پر ہم عیش کر رہے ہیں،وہ ٹکڑے چُن کر کھانے پر مجبور ہے۔ رُوپا نے کاکی سے معافی مانگی۔کہا پرماتما سے دعا کرو کہ میری خطا معاف کر دے۔پھر وہ اندر گئی اور ایک تھال میں کھانا سجا کر کاکی کو لا کر دیدیا۔
: ماحصل
سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔