جملہ۰۱۔ دنیا کا دستور ہے کہ کوئی فردِ بشر رنج سے خالی نہیں۔ اگر ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو تو انسان خدا کو بھول کر بھی یاد نہ کرے۔
:حوالہئ سبق و مصنف
یہ جملہ سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ سے لیا گیا ہے، جس کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔
: تشریح
شاہ زمانی بیگم اپنی چھوٹی بہن سلطانہ سے ملنے کے لیے اُن کے گھر گئی۔اُن کے شوہر فتح اللہ خان والی ِ اِندور کی سرکار میں مختار ِ کُل تھے اور لاکھوں کی جا ئید اد رکھتے تھے۔ گھر میں مال و دولت ریل پیل تھی۔ تیس چالیس نوکر تھے۔ ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ لیکن پھر بھی سلطانہ پریشان اور رنجیدہ رہتی تھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی بیٹیاں حسن آراء اور جمال آراء بہت بد مزاجی اور بد اخلاق تھیں۔یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی فردِ بشر رنج سے خالی نہیں۔امیرو غریب، عام و خاص اور شاہ و گدا ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پریشان ہے۔ اگر دنیا میں ہر طرف خوشی ہی خوشی ہوتی تو انسان خدا کو بھول کر بھی یاد نہ کرتا۔
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور ِ بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
جملہ ۱۱۔ ڈھنڈورا شہر میں، بچہ بغل میں۔
:حوالہئ سبق و مصنف
یہ جملہ سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ سے لیا گیا ہے، جس کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔
: تشریح
یہ ایک مشہور کہاوت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پریشانی کا حل انسان کے پاس خودموجود ہو لیکن اُس سے بے خبر ہو اور دوسروں سے مدد مانگ رہا ہو۔ شاہ زمانی بیگم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔وہ اپنے محلے میں رہنے والیاستانی اصغری کی قابلیت سے بخوبی واقف تھی، لیکن جب وہ اپنی چھوٹی بہن سلطانہ سے ملنے کے لیے اُن کے گھر گئی اور اُن کو حسن آراء کے بارے میں پریشان اور رنجیدہ دیکھا، تو اُن حسن آراء کی خاطر ایک اُستانی کے بندوبست کرنے کا مشورہ دیا۔سلطانہ نے برجستہ کہا کہ تمہاری مثال یہی ہے کہ ڈھنڈورا شہر میں،بچہ بغل میں۔ یعنی اُستانی تمہارے محلّے میں اور بندوبست کا مشورہ ہمیں۔
: حوالہئ مصنف
سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔
: مرکزی خیال
سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ میں مصنف تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاق کی اہمیت بیان کر رہے ہیں اور اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ ہر مسلمان خاتون کو تعلیم و تربیت اور اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اعلیٰ اخلاق کی حامل تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے گھروں کو جنت ِ نظیر بنا دیتی ہیں بلکہ اپنے آس پاس رہنے والو ں کی زندگیوں میں بھی خوشگوار اور مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے میں اہم
کردار ادا کرتی ہیں۔
برونِ خانہ تو سورج کی روشنی ہے بہت
ضیاءِ علم سے ہوتا ہے اندروں روشن
اساتذہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کردار اور اخلاق کا مالک بھی ہونا چاہیے۔ جو اساتذہ بااخلاق اور با کردار ہوتے ہیں، انکی تعلیم اور تدریس میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ طالب العلم ان کا ذات اور تدریس دونوں سے اثر قبول کرتے ہیں اورتعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے زیور سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔
جن کے کردار سے آتی ہے صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
: حوالہئ مصنف
سبق ”اصغری نے لڑکیوں کامکتب بٹھایا“ کے مصنف ”ڈپٹی نذیر احمد“ ہیں۔
: خلاصہ
حکیم صاحب کے چھوٹے بھائی حکیم فتح اللہ خان ریاست اندور میں مختار ِ کل تھے، دہلی میں بڑی جائداد بنائی تھی اور بڑی شان سے رہتے تھے۔ گھر میں مال و دولت ریل پیل تھی۔ تیس چالیس نوکر تھے۔ ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔فتح اللہ خان کی دو بیٹیاں تھیں، حسن آراء اور جمال آراء۔یہ دونوں بہت بد مزاج تھیں۔فتح اللہ خان کی بیوی سلطانہ اپنی بیٹیوں حسن آراء اور جمال آراء کی بد مزاجی اور افتاد ِ طبع کی وجہ سے رنجیدہ رہتی تھی۔سلطانہ کی بڑی بہن شاہ زمانی بیگم اپنی چھوٹی بہن سلطانہ سے ملنے کے لئے چلی گئی، تو سلطانہ کو بہت اُداس اور پریشان پایا۔ حالانکہ اُس کو خوش اور ہر قسم کی پریشانیوں سے آزاد ہونا چاہیے تھا۔لیکن دنیا کا دستور ہے کہ کوئی فردِ بشر رنج سے خالی نہیں۔ اگر ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو تو انسان خدا کو بھول کر بھی یاد نہ کرے۔ ہر شخص اپنی اپنی پریشانیوں میں گھِرا ہوا ہے۔ امیروں کی اپنی پریشانیاں اور غریبوں کی اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں۔
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور ِ بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
چونکہ سلطانہ کی بیٹیاں حسن آراء اور جمال آراء بہت بد مزاجی اور بد اخلاق تھیں۔اس لیے سلطانہ بھی اپنی بیٹیوں کی افتاد طبعی اور بدمزاجی کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھی۔ دونوں نہ تو وہ ماں ماں باپ کا لحاظ کرتی تھیں اور مہمانوں کے سامنے بے مروّتی سے چوکتی تھیں۔ شاہ زمانی بیگم نے چھوٹی بہن کو مشورہ دیاکہ وہ حسن آراء کو اصغری کے پاس تعلیم کے لیے بھیج دے۔ اصغری کا سسرال سلطانہ کے محلے میں تھا۔لیکن سلطانہ اس سے لاعلم تھی۔شاہ زمانی بیگم کے کہنے پر سلطانہ نے اپنی ایک ملازمہ کو اصغری کے پاس بھیج دیا۔ سلطانہ حسن آراء کی تعلیم کی خاطر استانی اصغری کو گھر پر بلانا چاہتی تھی،لیکن اصغری نے سلطانہ کے گھر جانے کے بجائے حسن آراء کو پڑھانے کے لیے اپنے گھر بلایا اور اس بات کی بھی وضاحت کی کہ اگر پیسے دے کے پڑھوا نا ہے تو شہر میں اور استانیاں بہت ہیں۔ اُن سے پڑھوا لیں۔
دونوں بہنیں حسن آراء کو لے کر اصغری کے ہاں چلی گئیں۔ اصغری نے حسن آراء کو اپنی شاگردی میں قبول کرلیا۔ سلطانہ نے اصغری کو کچھ اشرفیاں دیں۔ تاکہ رسمِ بسم اللہ کی مٹھائی منگوا کر بچوں کو کھلا دی جائے۔ اصغری نے ملازمہ کو بھیج کر مٹھائی منگوائی تاکہ بچوں کا منہ میٹھا کیا جائے۔ اس طرح شاہ زمانی بیگم اور سلطانہ حسن آراء کو اصغری کے پاس چھوڑ کر واپس گھر چلی آئیں۔