نظم ”سرِ راہ ِ شہادت“ کے شاعر”ابو الاثر حفیظ جا لندھری“ ہیں۔
:تعارف ِ شاعر
ابو الاثر حفیظ جا لندھری اردو کے مشہور نظم گو شاعر ہیں۔آپ ۰۰۹۱ء کو جالندھر میں پیدا ہو ئے۔ ۵۲۹۱ء میں خیر پور کے فرمانروانے دربا ر ِ شا ہی کا شاعر مقرر کر دیا۔مگر وہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی تو جالندھر واپس آ گئے۔ واپسی پر رسالہ ”اعجاز“ جا ری کیا۔ اسی طرح ایک عر صہ تک لا ہور میں مشہور رسالے ”شبا بِ اُردو“ کے مدیر رہے۔آپ اقبال کی طرح نظم گو شا عر تھے۔ شاہنامہئ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق آپ کے مشہور کارنامے ہیں۔آپ کا انتقال ۲۸۹۱ء کو لا ہور میں ہوا۔
:خلاصہ
شاعر کہتے ہیں کہ جب حضرت محمد ﷺ کی قیادت میں مجاہدین اسلام بے سرو سا مانی کے عالم میں میدان ِ احد کی طرف روانہ ہوئے تو حضور ِ پاک ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ بھی ساتھ تھے۔وہ حمزہ ؓ جن کی بہادری اور طاقت پر قبول ِ اسلام سے پہلے اہل ِ عرب فخر کرتے تھے اور جنہوں نے قبول ِ اسلام کے بعد جنگ ِ بدر میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے تھے اور کئی مشرکینِ مکہ کو جہنم واصل کیا تھا۔ حضرت حمزہ ؓ نے حضور ِ پاک ﷺ کے راستے کی کئی رکاوٹوں کو صاف کیا تھا اور اسلام کے لیے راہیں ہموار کی تھیں۔ غزوہ ئ احد میں اسلام کی سربلندی اور اپنے بھتیجے محمدﷺ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے تھے۔ شہادت ان کا مقدر بن چکی تھی اور وہ سیّد الشہداء کا اعزاز پانے والے تھے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور ِ پاک ﷺ نے حمزہ ؓ کی پیشانی چوما تو آپﷺ کے چہرے پر رقّت طاری تھی۔ یہ رقّت حمزہؓ کے لیے حضور کی بے پناہ محبت کی علامت تھی۔ گویا حضور کی نگاہیں کہہ رہی ہوں کہ حمزہؓ! خدا حافظ، ہم تمہیں خدا کے حوالے کرتے ہیں۔ تمہیں شہادت مبارک ہو۔ یہ دیکھ کر حمزہؓ کی آنکھیں بھی خوشی سے چمک اُٹھیں۔
اِسی جنگ ِ احد کے دوران اللہ کی راہ میں لڑتے لڑتے حضرت حمزہ ؓ نے شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے۔قبیلہ عبد الدار کے دو سرداروں عثمان اور ارطاۃ بن شرجیل سمیت کئی کافروں کو جہنم واصل کیا اور پھر خود بھی جام ِ شہاد ت نوش فرمایا۔ لیکن بزدل وحشی نے سامنے آنے کے بجائے ایک پتھر کے پیچھے سے چھپ کر وار کیا۔ حضور ِ پاک ﷺ نے آپؓ کو سیّد الشہداء کا لقب دیا۔
:ماحصل
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
:مر کزی خیال
مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بڑے کٹھن مراحل طے کئے۔اسلام کی سر بلندی اور کفر و شرک کے خاتمے کے لیے انہوں ہر قسم کی قربانیاں دیں۔نہ تو وقت کے کسی سپر پاور سے ڈرے۔ نہ دشمن کی کثرت سے خائف ہوئے اور ان کے ہتھیاروں سے مرعوب ہوئے۔بے سرو سامانی اور مشکل حالات کے باوجود انہوں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جب مسلمان اپنے حصے کی ذ مے داریاں سر انجام دیتا ہے اور اعلائے کلمۃاللہ کے گھر سے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کرتا ہے اور فوج در فوج فرشتے اس کی مدد کے لیے آسمان سے اتار تا ہے۔ مسلمان دین کی سر بلندی اور کفر و شرک کے خاتمے کے لیے اللہ کے راستے میں لڑتا ہے۔ نہ تو اپس کا مقصد سرحدوں کی وسعت ہوتا ہے اور نہ مال ِ غنیمت کا حصول۔