جواب: سر سید احمد خان نے”امید“کو اسی لیے خوشی قرار دیا ہے کیونکہ اسی امید کے ذریعے انسان زندگی کے مشکل مراحل طے کرتا ہے۔ اگر امید کا سہارا نہ ہو تو انسان زندگی کی دشوار گھاٹیاں کبھی بھی طے نہ کر سکے اور اگر مصیبت کی کسی کھائی میں گرے تو اُس سے واپس کبھی باہر نہ نکل سکے۔ اسی امید کے دم پر انسان منزل کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
سوال۲۔ ماں بچے کو کیا لوری دیتی ہے؟
جواب: ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے:
سو رِہ، میرے بچے سو جا۔اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رِہ،اے میرے
دل کی کونپل سو رِہ،بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آئے۔ تیرا مکھڑا چاند سے زیادہ روشن ہوگا۔
گویا ماں اپنے بچے کے لیے اپنی محبت اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہے۔
سوال۳۔ بے گناہ قیدی رنجیدہ کیوں تھا؟
جواب: بے گناہ قیدی سے مراد ”حضرت یوسف ؑ“ہیں،جو اپنے بھائیوں کی دشمنی کا شکار ہوئے اور کنویں میں پھینکے گے۔اندھرے کنویں میں اُس کا دل اُداس، رنجیدہ اور بے چین تھا۔ اپنے باپ حضرت یعقوب کی یاد اور اندھیرے کنویں کی تنہائی نے اِس بے گناہ قیدی کو رنجیدہ کر دیا تھا۔ اِس قید امید ہی اُس کا آخری سہارا تھا۔
سوال۴۔ امید ہماری زندگی میں کیا تبدیلی لا سکتی ہے؟
جواب: امید ہماری زندگی میں خوشگوار اور مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ ہم امید ہی کے دم سے محنت کرتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں اور نیکی اور بہادری کے کام کرتے ہیں۔ اگر امید نہ ہو تو ہم سستی کا شکار ہو جائیں اور اپنے حصے کی ذمّہ داریاں بھی انجام دینا چھوڑ دیں۔ امید ہمیں ہر وقت حرکت اور محنت پر آمادہ کرتی ہے۔
سوال۵۔ آپ کی کونسی امید آپ کے والدین کے لیے خوشی کا باعث ہے؟
جواب: ہماری پُر خلوص خدمت و اطاعت اور سچی ہمدردی کا جذبہ ہمارے والدین کے لیے خوشی کا باعث ہے۔