نظم ”دنیائے اسلام“ شاعر ِ مشرق ”ڈاکٹر علامہ محمد اقبال“ کی تخلیق ہے۔
:تعارف ِ شاعر
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صرف ہندوستان نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کے عظیم مفکر اور شاعر ہیں۔ آپ ۷۷۸۱ ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج سے ایم۔اے کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں ہا ئیڈ ل برگ یونیورسٹی جرمنی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اقبال نے مشرق و مغرب کے تمام فلسفے پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا گہرا مطالعہ کیا اور اُس کے بعد قرآن مجید کی روشنی میں ملک و قوم کی اصلاح کو ا پنی شاعری کا موضوع بنایا اور مسلمانوں کو توحید ِ خداوندی، عشق ِ محمد،عملِ پیہم، یقین ِ محکم اور اتحاد و اتفاق کا درس دیا۔
:پس منظر
۴۱۹۱ ء میں پہلی جنگ ِعظیم کے بعد انگریزوں نے وطنیت کے سیاسی تصوّر کے ذریعے ترک نیشنل ازم اور عرب قومیّت کا شوشہ چھوڑا گیا اور عالم ِ اسلام کے حصے بخرے کرنے اور خلافت ِ عثمانیہ کو بکھیرنے کی کوشش کی گئی۔ قومیت کے اس تصور سے مسلمانوں کی اجتماعی ہیئت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کردیا۔نظم ”دنیائے اسلام“علامہ اقبال نے اُسی زمانے میں کہی تھی، جب خلافت ِ عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا تھا۔
:خلاصہ
اقبال مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دے رہے ہیں۔وہ یورپ کی سیاسی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے۔وہ جانتے تھے کہ یورپ کا یہ نظریہئ قومیت اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کو بانٹنے کی سازش ہے۔ لہٰذا علامہ اقبال نے اس نئے بت کو توڑنا اپنا دینی فرض سمجھا۔ اقبال نے اُس کے خلاف شد ومد کے ساتھ آواز اُٹھائی۔ اِس نظم میں اقبال صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ تہذیب فرنگ کا تراشا ہوایہ نظریہئ وطنیت، دین ِاسلام کی جڑ کاٹتا ہے۔جس طرح نسلی وابستگی پر مسلمانوں میں الگ الگ قومیتوں کا تصور خلاف ِ اسلام ہے۔ اِسی طرح جغرافیائی حدود کی بنا پر جداگانہ قومیت کا تصور دین ِ اسلام کا نقیض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا یہ پیغام صرف ہندی مسلمانوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اقبال نے اِس کو پورے عالم ِ اسلام تک پھیلایا۔ وہ پورے عالم ِاسلام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک ِ کاشغر
اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ اُن کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ لیکن مسلمان پھر بھی غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ مغربی نظریہئ قومیّت سے قطع نظر مسلمانوں کو اسلامی اخوّت اور اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دریائے نیل سے لیکر کاشغر تک ایک ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ اسلام اور حرم کی پاسبانی کا حق ادا کرسکے۔ رنگ و نسل، زبان اور علاقائیت کے امتیازات مسلمانوں کے لیے ذہر ِ قاتل کا حکم رکھتے ہیں۔ اسلام کے نام پر اتحاد و اتفاق میں مسلمانوں کی عزّت و آبرو اور قوّت ہے۔جبکہ نسلی اور لسانی امتیازات میں مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے اسباب ہیں۔ اقبال نے قوم کو اس نظریہئ وطنیت کی تباہ کاریوں اور فتنہ سامانیوں سے آگاہ کیا۔
:ماحصل
اپنی ملّت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی
:مر کزی خیال
اسلامی نظریہئ قومیت توحید پر مبنی ہے اور توحید ِ الٰہی، توحید ِ انسانی پر پرتو فگن ہے۔مسلمانوں کو ترکی، ایرانی، افغانی، پاکستانی، عرب اور عجم کے امتیازات میں الجھنے کے بجائے ایک ملّت ِ اسلامیہ کی حیثیت سے عالم ِ کفر کا مقابلہ کرنا چاہیے۔خدا کی زمین مومن کا دیس ہے۔اسلام نے مسلمانوں کو محض ایک قوم ہی نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے
: سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے
بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ۔
اسلام مسلمانوں کو وطن کے ساتھ نہیں جوڑتا، بلکہ عقیدہ ئ توحید کی بنیاد پر ایک قوم کہتا ہے۔ ملت اسلامیہ رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذہبی تصورات، عقائد اور افکار کی ہم آہنگی سے وجود میں آئی ہے۔مسلمانوں کی متحدہ قومیّت اور جمعیت کا راز اسلام کے اندر پوشیدہ ہے۔