باب (18) برسات کا تماشا

  • Home
  • باب (18) برسات کا تماشا
Shape Image One

برسات کا تماشا

advanced divider

حوالہئ شاعر:۔

     نظم  ”برسات کا تماشا“  ”نظیر اکبر آ بادی“ نے تخلیق کی ہے۔

:تعارف ِ شاعر

نظیر اکبر آ بادی اردو کے پہلے عوامی شا عر تھے۔ آپ کا اصل نام سید ولی محمدتھا۔نظیرؔتخلص اختیار کرتے تھے۔آپ نے غزل کے زمانے میں اُردو نظم کی بنیاد ڈا لی۔ اللہ تعالیٰ نے اکبر آبادی کو فی البدیہ شا عرانہ صلاحیتیں عطا ء کی تھیں کہ راہ چلتے اشعار کہتے ہیں۔ وہ اپنے مطالعے، تجر بے اور مشاہدے کی و جہ سے جز ئیات نگاری میں بے مثل تھے۔ آپ نے اپنے معاشرے کو صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا اور حقائق کو اُجا گر کیا۔۔ حقیقت نگاری، شگفتگی، ظرافت اور دنیا کی بے ثباتی ان کے کلام کی خصوصیات ہیں۔

: تعارف ِ نظم

برسات کی بہاریں ان کی معرکتہ الآرا نظم ہے جو مخمس کی شکل میں ہے۔ یعنی اس کا ہر بند پانچ مصرعوں پر مشتمل ہے۔ فنی اعتبار سے یہ ترکیب بند ہے، کیونکہ ہر بند کا آخری مصرع ایک ہی زمین لیکن الگ الگ موضوعات پر مبنی ہے۔ منظر کشی کے لحاظ سے یہ نظم بے مثال و منفردہے۔

:خلاصہ

جب سورج آسمان سے شعلہ باری کرتا ہے اور زمین کے رگ رگ میں آگ بھر دیتا ہے، تو یہ اِ س بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اب خدا کا کرم جوش میں آنے والا ہے اور رحمت کے بادل آسمان پر منڈلانے والے ہیں۔

 

دھوپ   نے   گزارش   کی

ایک  بوند    بارش کی

             بارش سے قبل ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کوہ و دمن اور دشت و صحراء میں بارانِ رحمت کی نوید سناتی ہیں۔انسان، چرند پرند اور جنگل کے جانور سب بارش کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور موسمِ برسات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ پانی سے لدے بادل آسمان پر منڈلاتے ہیں اور کوہ و دمن پر خوب کھلکھلا کر برستے ہیں۔ ہر طرف جل تھل ہو جاتا ہے۔ پہاڑ اور وادیاں بارش کے پانی میں نہا نہا کر ترو تازہ ہوجاتے ہیں اور ہریالی کا لباس زیب تن کر دیتے ہیں۔ پیڑ پودے سبز لباس پہن کر بڑا خوبصور ت منظر پیش کرتے ہیں۔ ابر آلود موسم اور بارش کی رم جھم دلوں پر مسرت اور انبساط کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ پہاڑوں کے ندی نالے رواں ہو جاتے ہیں اور زمین کی مردہ رگوں میں پھر سے زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے۔ کوئل، پپیہے اور بلبلیں برسات کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہواؤں میں اُڑتے پھرتے خوشیوں کے گیت گاتے ہیں۔جھیلوں اور دریاؤں کے کناروں پر بگلوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں اور مور خوشی کے مارے جنگل میں رقص کرتے ہیں۔یہ موسم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا شاعر لوگوں کو بار بار بارش سے لُطف اندوز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

شہروں اور بستیوں میں زندگی لوٹ آتی ہے۔ گھروں میں طرح طرح کے مزیدار پکوان پکتے ہیں۔ پلاؤ، زردے اور پکوڑے تیارہوتے ہیں اور موسم کے پھلوں اور خشک میوہ جات کی مانگ بڑھتی ہے۔ الغرض رنگ و نور کی برسات ہوتی ہے اور خوشیوں کا سماں بندھ جاتا ہے۔ مرد وعورت، بچے، جوان اور بوڑھے سب خوشیوں کے جھولے لیتے ہیں۔

گھٹا   دیکھ  کر  خوش   ہوئی   لڑکیاں

چھتوں  پر  کھِلے   پھول  برسات  کے

:مر کزی خیال

         موسم برسات قدرت ِ خداوندی کا ایک خوبصورت مظاہرہ ہے۔ ایسادلفریب موسم برپا کرنا صرف خدائے بزرگ و برتر ہی کی کاری گری ہے۔ صرف وہی اس پر قادر ہے کہ مردہ زمین کو پھر سے زندگی بخش دے اور بہار کا موسم بر پا کر دے۔ موسم کا سب سے زیادہ اثر چرند پرند، حیوانات اور انسانوں پر ہوتا ہے۔ بارش کے موسم میں اُن کے جذبات و احساسات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔

جن کے پہلوں میں ہے دل اور دل میں دم جذبات کا

پوچھو،  ان خوش  بختوں سے  تم  مزہ  برسات  کا

 بارش رحمتِ خداوندی ہے مگر ایک طرف جہاں یہ خوشیاں لاتی ہے، تو دوسری طرف یہ دلوں میں دکھ درد کے دریچے بھی کھول دیتی ہے۔

بھیگی  مٹی  کی   مہک  پیاس  بڑھا  دیتی   ہے

درد  برسات  کی   بوند وں  میں  بسا  کرتا  ہے